یہ پاکستان سپر لیگ کا پہلا سیزن تھا۔ خدشات توقعات سے کہیں زیادہ بڑھ کر تھے لیکن اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو کھیلتا دیکھنے کی تمنّا بھی سب ہی کی تھی۔ پھر ایک شاندار افتتاحی تقریب کے ساتھ سیزن کا آغاز ہوا تو خدشات چھٹنے لگے اور شائقین کرکٹ نے مختلف وجوہات کی بنیاد پر اپنی ٹیموں کا انتخاب کیا۔

شاہد آفریدی کی وجہ سے ایک بڑا حلقہ پشاور زلمی کے ساتھ تھا، کراچی والے کنگز تو لاہوری قلندر بنے ہوئے تھے۔ ان کے پاس بھی اپنی اپنی 'اسٹار پاورز' تھیں یہاں تک کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی بھی اچھی بھلی 'فین بیس' تھی لیکن جو ٹیم 'ہمدردی کے ووٹ' سے بھی محروم تھی وہ اسلام آباد یونائیٹڈ کی تھی۔ اُن کا دھیمے مزاج کا قائد ایک ٹی ٹوئنٹی کپتان کے لیے عوام کے ’معیارات‘ پر پورا نہیں اترتا تھا۔

پھر اسلام آباد یونائیٹڈ کا آغاز بھی کچھ خاص نہیں تھا۔ کوئٹہ کے ہاتھوں پہلا مقابلہ ہارے تو لوگوں نے ’بلوچستان نے وفاق سے بدلہ لے لیا‘ کی پھبتی کسی۔ اگلے مقابلے میں پشاور زلمی سے بھی شکست کھائی تو گویا 'یک نہ شد، دو شد' ہوگیا۔ کراچی کنگز سے بمشکل 2 وکٹوں سے جیت پائے اور پھر لاہور قلندرز کو ہرا کر اپنے اوسان بحال کیے ہی تھے کہ پشاور اور کوئٹہ ایک مرتبہ پھر آڑے آگئے اور اس بار ہوئی 7، 7 وکٹوں سے 2 کراری شکستیں!

صورت حال یہ تھی کہ اسلام آباد یونائیٹڈ 8 میں سے 6 میچز کھیل چکا تھا اور ان میں سے صرف 2 میں کامیابی حاصل کی تھی یعنی محض 4 پوائنٹس۔ کوئی اور ہوتا تو شاید ہمت ہار دیتا لیکن یاد رکھیں کہ جس مصباح الحق نے بدترین دور میں قیادت سنبھال کر پاکستان کو بہترین مقام تک پہنچایا تھا، وہی اسلام آباد یونائیٹڈ کے بھی کپتان تھے۔ پھر ٹیم کے ساتھ وسیم اکرم جیسا بہترین کرکٹ دماغ بھی تھا اور بہت سارے پس پردہ کردار بھی، جنہوں نے ایک متوازن دستہ تشکیل دینے میں اپنی اپنی مہارتیں پیش کیں۔

مزید پڑھیے: پی ایس ایل 3، کون کتنے پانی میں؟

بہرحال، آخری دونوں مقابلوں میں اسلام آباد نے ایک مرتبہ پھر کراچی اور لاہور کے خلاف کامیابیاں حاصل کیں اور پلے-آف سے پہلے اوسان بحال کرلیے، جہاں اس نے پہلے کراچی کنگز کو شکست دے کر ٹورنامنٹ سے باہر کیا اور پھر پشاور زلمی کی امیدوں کا چراغ گل کردیا یعنی بہت سوں کے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔

یہی وہ مقابلہ تھا جس میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم ہمیں اپنے عروج پر دکھائی دی۔ اس نے صرف 3 وکٹوں پر 176 رنز بنائے اور پشاور کو 126 رنز پر ڈھیر کرکے فائنل میں جگہ بنائی۔ پھر پی ایس ایل تاریخ کے پہلے فائنل میں اسی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو شکست دی جس کے ہاتھوں پہلے مرحلے کے تمام میچز میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

کوئٹہ پہلے کوالیفائنگ فائنل میں پشاور زلمی کو 1 رن سے شکست دے کر فائنل تک پہنچا تھا۔ پھر اسلام آبادیوں کے علاوہ شاید پورا پاکستان ہی فائنل میں کوئٹہ کے ساتھ تھا۔ جب کوئٹہ نے 175 رنز کا ہدف دیا تو بہت کم لوگوں کو امید تھی کہ اسلام آباد یہاں سے بھی جیت جائے گا لیکن مصباح الیون نے ایسا کر دکھایا۔ ڈیوین اسمتھ کے شاندار 73 اور بریڈ ہیڈن کے ناٹ آؤٹ 61 رنز نے اسلام آباد کی نیّا پار لگا دی اور رات گئے جب پی ایس ایل 1 کی ٹرافی دی گئی تو وصول کرنے والے کپتان مصباح الحق تھے۔

یہ ایک ناقابلِ یقین کہانی لگتی ہے کہ اپنے 6 میں سے 4 میچز ہارنے والی ٹیم چیمپیئن بن جائے۔ بالکل اسی طرح جیسا کہ 2010ء میں جب اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد مصباح نے پاکستان کی قومی کرکٹ کی قیادت سنبھالی تو کسی کو یہ تک امید نہیں تھی یہ ٹیم شاید اب سنبھل سکے، لیکن ہم نے دیکھا کہ چند سال بعد اُسی ٹیم نے ٹیسٹ کرکٹ میں دنیا کی نمبر ایک ٹیم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ چاہے آپ مصباح الحق کو پسند نہ کریں، چاہے آپ کو اسلام آباد یونائیٹڈ میں کوئی ’اسٹار پلیئر‘ نظر نہ آتا ہو جس کے لہراتے بالوں اور دمکتے چہرے کو دیکھ کر شائقین کی آنکھیں چندھیا جائیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تینوں سیزنز میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے ثابت کیا ہے کہ کرکٹ زورِ بازو کے ساتھ ساتھ شاطر دماغ سے بھی کھیلا جاتا ہے، اس میں جہاں طاقت کا ہاتھ ہے، وہیں یہ شطرنج کی بساط بھی ہے۔ اگر صرف طاقت ہی درکار ہوتی تو لاہور قلندرز 7 میں سے 6 میچز نہ ہارتا اور اسلام آباد پہلے سیزن میں 6 میں سے 4 میچز ہارنے کے باوجود چیمپیئن نہ بنتا۔

مزید پڑھیے: پاکستان سپر لیگ کے خلاف گھٹیا پروپیگنڈا اور اس کا جواب

پی ایس ایل تاریخ میں ہر سیزن میں اسلام آباد نے اپنے کھلاڑیوں کا انتخاب بہت خوبی کے ساتھ کیا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس معاملے میں یونائیٹڈ کی آنکھیں بہت تیز رہی ہیں۔ ٹیم نے بنیاد ہی بہترین ڈالی اور ہمیشہ متوازن ترین دستہ تشکیل دیا۔ پہلے سیزن سے ہی تجربہ کار، نوجوان اور ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کا بہترین انتخاب کیا۔ مصباح الحق، بریڈ ہیڈن، سیموئل بدری اور محمد سمیع کو ایک ہی ٹیم میں دیکھ کر تو بہت سے حلقوں نے پہلے سال اس ٹیم کو ’بوڑھوں کی ٹیم‘ کے طعنے بھی دیے لیکن یہ نہیں دیکھا کہ اسی ٹیم میں شرجیل خان، آصف علی اور عمران خالد بھی تھے۔ پھر شاداب خان اور رمّان رئیس بھی یہیں سے عروج کے سفر پر نکلے۔

بہرحال، تنقید کا بہترین جواب اچھی کارکردگی کے سوا کچھ نہیں تھا اور اسلام آباد نے ایسا کر دکھایا۔ دوسرے سیزن میں اگرچہ یہ ٹیم اپنے اعزاز کا دفاع تو نہیں کرسکی مگر یہ ضرور ثابت کیا کہ وہ پی ایس ایل کی بہترین ٹیموں میں سے ایک ہے۔

اب تیسرے سیزن میں سب کی نظریں ایک مرتبہ پھر پشاور زلمی پر ہیں یا پھر شاہد آفریدی کی نئی ٹیم کراچی کنگز پر، لاہور والوں نے پچھلے 2 سیزنز کی شکستوں کے باوجود آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا، کوئٹہ کی چھپے رستم والی حیثیت تو سبھی تسلیم کر رہے تھے، ملتان سلطانز نے بھی پہلا تاثر جاندار دیا لیکن جس ٹیم کو کوئی خاطر میں نہیں لارہا تھا وہ ایک مرتبہ پھر مصباح الحق کی اسلام آباد یونائیٹڈ تھی۔

یہاں تک کہ اِس بار اسے کوئٹہ سے بھی کم اہمیت دی گئی۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ ابتدائی 3 مقابلوں میں سے 2 میں شکست نے پوری کردی یعنی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو رہی تھی، لیکن پھر ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام آباد نے اپنا کمال دکھایا۔

سیزن کا سب سے یادگار مقابلہ لاہور کے خلاف کھیلا جہاں سپر اوور میں کامیابی حاصل کی اور اب عالم یہ ہے کہ کوئی بھی اسلام آباد کو روکتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایک کے بعد دوسرا، بلکہ اب تو یہ ٹیم مسلسل 4 میچز جیت چکی ہے، جو اب تک کسی ٹیم نے نہیں جیتے۔ یہ اسلام آباد یونائیٹڈ ہی ہے جو مسلسل 4 مقابلوں میں ناقابلِ شکست رہنے والی کراچی کنگز کو واپس زمین پر کھینچ لائی ہے، پھر لاہور قلندرز کو دوسرے مقابلے میں کراری شکست دی ہے بلکہ پشاور زلمی کو بھی ہرا کر پوائنٹس ٹیبل پر سب سے اوپر پہنچ گئی ہے۔

اسلام آباد نے محض کامیابیاں حاصل نہیں کیں بلکہ جو اصل پہلو ہے وہ اُن کے کھیل کا انداز ہے۔ آخری چاروں فتوحات پر نظر ڈالی جائے تو اس ٹیم نے پشاور کے خلاف 182 رنز بنا کر مقابلہ جیتا، لاہور کے خلاف گزشتہ میچ میں 164 رنز کا ہدف کامیابی سے حاصل کیا جبکہ کراچی کنگز کو 8 وکٹوں کی بھاری شکست دی، حالانکہ ہدف 154 رنز تھا۔ اس سے قبل لاہور کے خلاف پہلا مقابلہ تو اس سیزن کا بہترین میچ تھا کہ جہاں ہاری ہوئی بازی کو اپنی ناقابلِ یقین فیلڈنگ، قائدانہ فیصلوں اور مشکل ترین حالات میں بھی حوصلہ نہ ہارنے کی صلاحیت کی بدولت جیتا۔

سپر اوور کی آخری گیند پر لگایا گیا آندرے رسل کا چھکا بھلا کوئی بھلانے والی چیز ہے؟ اس مقابلے کی خاص بات تھی مصباح کی کپتانی۔ ان کی فیلڈ پلیسنگ، باؤلنگ چینجز اور پھر ٹیم کا ہاف چانسز کو بھی حاصل کرکے فیصلہ اپنے حق میں لینا۔ یہ سب جہاں حیران کن تھا وہیں افسوس ناک بھی کہ مصباح جیسے ذہین دماغ کی کبھی عوام نے قدر نہیں کی۔ ان جیسے عظیم کپتان کو کبھی وہ اہمیت نہیں ملی جس کے وہ حقدار تھے۔

بہرحال، بحیثیت مجموعی اسلام آباد یونائیٹڈ نے اپنے وسائل کا اب تک بہترین استعمال کیا ہے اور وہ ہر گزرتے مقابلے کے بعد ایک بہتر اور مزید خطرناک ٹیم بنتی جا رہی ہے۔ کوچ ڈین جونز کھیل میں پوری طرح محو نظر آتے ہیں، وہ حکمت عملی ترتیب دیتے رہتے ہیں، نوٹس لیتے رہتے ہیں۔ ٹیم انتظامیہ نے بہت خوبی سے کھلاڑیوں کا باری، باری انتخاب کیا گیا ہے، آرام کے مواقع بھی دیے ہیں اور زخمی ہونے والے اہم کھلاڑیوں کے بھی بہترین متبادل پیش کیے ہیں۔

کوئی اور ٹیم ہوتی تو آندرے رسل اور رمّان رئیس جیسے کھلاڑیوں کا زخمی ہونا اس کے لیے آخری دھچکا ہوتا۔ لیکن یہ ٹیم ہر مشکل سے کندن بن کر نکل رہی ہے۔ اب تو جے پی دومنی بھی ترنگ میں نظر آرہے ہیں جنہوں نے پشاور زلمی کے خلاف میچ میں 73 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز کھیلی ہے۔ لیوک رونکی بھی بھرپور فارم میں ہیں جنہوں نے مسلسل 2 میچز میں طوفانی اننگز کی بدولت مردِ میدان کے اعزازات جیتے۔

آج 7 میچز میں 5 کامیابیاں اور 10 پوائنٹس اسلام آباد یونائیٹڈ کے بلندی کی جانب سفر کی داستان بیان کر رہے ہیں۔ اس لیے چاہے آپ کراچی کنگز کے متوالے ہوں یا پشاور زلمی کے دیوانے، ملتان کے چاہنے والے ہوں یا کوئٹہ کے شیدائی، اگر آپ کسی کو بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ کھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں تو اسلام آباد کے میچز دیکھیے۔ ان کے پاس جیت کے لیے پوری تیاری ہے، وہ کیل کانٹوں سے لیس ہیں اور ہر مشکل سے نکلنے کا ہُنر انہیں آتا ہے۔ بالفاظ دیگر ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ سب متوقع امیدوار ’ہنسی خوشی جی رہے تھے‘ کہ اسلام آباد یونائیٹڈ نے ’رولا ڈال دیا!‘

تبصرے (1) بند ہیں

Rizwan Mar 10, 2018 05:15pm
Indeed well balanced team,, Sami in bowling and JP domni I’m batting is awesome,, excellent middle order and some attacking fast bowlers and few all rounders as well. Faheem Ashraf is doing well and see even though shadab is not taking wickets but still team is winning