سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بلوچستان میں سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی صورت حال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے صوبے کے سابق وزراء اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری کو طلب کرلیا۔

سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منظور علی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے یہ احکامات بلوچستان کے سرکاری ہسپتالوں اور کالجوں کے حالت زار پر کیس کی سماعت کے دوران جاری کیے۔

سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ وزراء اعلیٰ نے اپنے دور میں انتظامات کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے؟

مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا دورہ جناح ہسپتال: ایمرجنسی وارڈ میں بدبو پر برہمی

انہوں نے حکم جاری کیا کہ ان تمام وزراء اعلیٰ، جنہوں نے یہاں گزشتہ 4 سال کے عرصے میں حکمرانی کی ہے، کو طلب کریں۔

عدالت میں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور صوبائی وزیر صحت میر ماجد آبڑو اپنا موقف دینے کے لیے پہنچے۔

بلوچستان کے سیکریٹری تعلیم نور الحق بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ صوبے میں تقریباً 10 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت ان بچوں کو اسکولوں میں بھرتی کرنے میں کیوں ناکام ہے؟

سیکریٹری تعلیم نے دعویٰ کیا کہ صوبے میں تقریباً 26 لاکھ بچے اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔

سپریم کورٹ نے دو سابق وزراء اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری کو صوبے میں انتظامی امور کو بہتر بنانے میں ناکامی کی وجوہات بتانے کے لیے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

سیکریٹری صحت بلوچستان صالح نثر نے عدالت کو بتایا کہ اگلے 10 دنوں میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت کی بہتری کے لیے پالیسی تشکیل دے دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: چیف جسٹس کے ہنگامی دوروں کا ڈر، سہولیات کی فراہمی کیلئے کمیٹی تشکیل

چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ بلوچستان اور دیگر اعلیٰ حکام کے ہمراہ کوئٹہ کے سول ہسپتال کا دورہ بھی کیا اور مریضوں کی عیادت کی۔

علاوہ ازیں چیف جسٹس نے ینگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈکس اسٹاف کی جانب سے جاری ہڑتال کے کیمپ کا بھی دورہ کیا اور ان کے دورے کے پیش نظر پیرا میڈکس اور ینگ ڈاکٹرز نے اپنی ہڑتال ملتوی کردی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ہزارہ کمیونٹی کے وفد سے ملاقات کی۔

ملاقات کے دوران چیف جسٹس نے ہزارہ کمیونٹی کے مسائل کو قانون کے مطابق حل کرانے کی یقین دہانی کروائی۔

تبصرے (0) بند ہیں