لندن: دولت مشترکہ کے رکن ممالک میں صحافیوں کو درپیش مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا ہے،یہ ضابطہ اخلاق 6تنظیموں نے ترتیب دیا ہے، جس میں گڈ گورنس میں میڈیا کے کردار پر بات کی گئی ہے۔

واضح رہے یہ اعلامیہ رواں ماہ ہونے والے دولت مشترکہ کے اجلاس سے قبل جاری کیا گیا، جو کہ آزادی اظہار رائے اور گڈ گورنس میں میڈیا کے کردار کے حوالے سے بنائے گئے ضوابط کی ایک جامع صورت ہے۔

ضابطہ اخلاق میں رکن ممالک کے لیے ذرائع ابلاغ، عدلیہ، مقننہ اور ریاست کے تعلق،انتخابات میں میڈیا کے کردار، اس حوالے سے رہنما اصول اور قواعد و ضوابط کے مسائل پر بات کی گئی ہے۔

یونیورسٹی آف لندن کے سینیٹ میں مسودے کی اشاعت کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں انسٹیٹیوٹ آف کامن ویلتھ اسٹڈیز (آئی سی ڈبلیو ایس) کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سُو اونسلو کا کہنا تھا کہ حکومتیں ہمیشہ سے ایک سیاسی بیانیہ تشکیل دینا چاہتی ہیں،ایسے میں میڈیا کی آزادی ایک مشکل معاملہ ہے جس کی مسلسل نگرانی اور حفاظت ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سال 2016: ’پاکستان میں کوئی صحافی قتل نہیں ہوا‘

اس ضابطہ اخلاق کو جاری کرنے کی وجوہات کو بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دولت مشترکہ ممالک میں میڈیا کی آزادی کو بہت سے خطرات کا سامنا ہے،اس کے ساتھ صحافیوں کے قتل، حملوں اور جبری حراست میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق 2013 سے 2017 تک دولت مشترکہ کے ممالک میں 57 صحافیوں کا قتل ہوا، جبکہ دولت مشترکہ کے اہم ممالک میں میڈیا پر حملے اور پر تشدد واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

صحافیوں کے حقوق کی تنظیم کمیونٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) کی جانب سے 2017 میں جاری کردہ گلوبل امپیونٹی انڈیکس رپورٹ کے مطابق 12ممالک جہاں صحافی قتل ہوئے، صحافیوں کو انصاف فراہم کرنے کی صورتحال بہت خراب ہے، جس میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور نائجیریا شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: میڈیا سے وابستہ افراد کیلئے آٹھویں ویج بورڈ ایوارڈ کا اعلان

کمیونٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ عشرے کے دوران صحافیوں کے قاتلوں کو سزا نہ ملنے کی شرح میں پاکستان میں 113 فیصد جبکہ بھارت میں 100فیصد اضافہ ہوا۔

اس رپورٹ کو جاری کرنے کی وجہ یہ تھی کہ بہت کم واقعات میں صحافیوں کے قاتلوں کو پکڑا جاسکا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ دولت مشترکہ کے قانون کی بالادستی ،او میڈیا کے حقوق کی حفاظت کے وعدوں کے باوجود انصاف نہ ملنے کی شرح میں اضافہ قابل تشویش ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 12 اپریل 2018 کو شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں