اسلام آباد: آٹو سیکٹر (شعبے) کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے گاڑیوں کی نقد خریداری پر پریمیئم کو ختم کرنے کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے جس کا مقصد صنعت کاروں کو تھوک اور خوردہ سطح پر اس عمل کو کرنے سے روکنے کے لیے کارروائی کرنا تھا۔

کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کی جانب سے پاکستان آٹو موبائل سیکٹر میں منعقد کردہ عوامی سماعت کے دوران آٹو سیکٹر کے نمائندگان کا کہنا تھا کہ گذشتہ تین سال سے ہزاروں سرمایہ کاروں کے آڈرز منسوخ کئے گئے ہیں جن میں سے اکثر گاڑیوں کی بکنگ ایک ہی شناختی کارڈ پر کروائی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: پاکستان، چینی کمپنیوں کا آٹو سیکٹر میں سرمایہ کاری کا فیصلہ

یہ سماعت آٹو سیکٹر کے تمام مسائل سے متعلق تمام اسٹیک ہولڈرز کے خیالات جاننے کے لیے منعقد کی گئی تھی، سی سی پی کا بینچ چیئرمین سی سی پی ودیا خلیل اور دیگر ممبران ڈاکٹر شہزاد انصر اور ڈاکٹر محمد سلیم پر مشتمل تھا۔

سی سی پی کے زیرِ انتظام سماعت اسٹیک ہولڈرز سمیت دیگر اداروں جیسے ایف بی آر، وزارت تجارت، انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ، ایکسائز اور ٹیکسیشن، آٹو ساز، پاکستان آٹو موبائلز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن، پاکستان آٹو موبائل اسمبلرز اور ڈیلرز ایسوسی ایشن، پاکستان آٹوموٹو پارٹس اینڈ ایسیسریز مینوفیکچررز، پاک ویلز، کار امپورٹرز کے نمائندوں اور صارفین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

اس موقع پر محترمہ ودیا خلیل نے کہا کہ سی سی پی کو لوکل سطح پر بننے والی گاڑیوں اور ان کی بکنگ کے بعد ترسیل میں تاخیر اور اس کی وجہ سے ڈیلرز کی جانب سے پریمیئم طلب کرنے سے متعلق شکایات موصول ہورہی ہیں۔

دوسری جانب انڈس موٹرز کے سی ای او علی اصغر جمالی نے کہا کہ ان کی کمپنی نے وہ تمام آڈرز منسوخ کردیئے جن کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں مسلسل دوسرے ماہ کمی

انہوں نے کہا کہ ہمیں بہت افسوس ہے کہ حکومت نئی گاڑیوں پر بھاری ٹرانسفر ٹیکس عائد نہیں کرتی یہ تجویز ڈیلرز کی جانب سے پریمیئم کے اضافے کو روک دے گی۔

استعمال شدہ گاڑیوں کے درآمد کنندگان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ نئی گاڑیوں کی درآمدات کو کمرشل بنیادوں پر فروخت کی اجازت دی جائے تاکہ عوام کے پاس گاڑیوں کے لیے زیادہ آپشن موجود ہوں۔


یہ خبر 13 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں