بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قانون ساز اسمبلی کے رکن (ایم ایل اے) کلدیپ سنگھ سینگر کو 7 روز کے لیے سی بی آئی کے حوالے کردیا گیا، وہ اتر پردیش میں 17 سالہ لڑکی کے ریپ میں مرکزی ملزم ہیں۔

ملک کی اہم خفیہ ایجنسی سی بی آئی، ششی سنگھ سے تفتیش کررہی ہے، جنہیں سی بی آئی کی درج ایف آئی آر میں کلدیپ سنگھ کے ساتھی کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، ایف آئی آر کے مطابق ششی سنگھ مبینہ طور پر متاثرہ لڑکی کو ایم ایل اے کی رہائش گاہ پر لے کر گیا تھا۔

کلدیپ سنگھ سینگر کے وکیل نے کہا کہ 'ہم منصفانہ تحقیقات کی حمایت کرتے ہیں، انہیں 7 یوم کے لیے سی بی آئے کی تحویل میں دیا گیا ہے'۔

دو روز قبل سی بی آئی نے طویل تفتیش کے بعد کلدیپ سنگھ سینگر کو حراست میں لے لیا تھا۔

بنگرماؤ سے تعلق رکھنے والے اتر پردیش کے ضلع اناؤ کے ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سینگر کو سی بی آئی کی ٹیم نے اندرا نگر میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا اور سی بی آئی کے زونل آفس میں کئی گھنٹے تک ان سے تفتیش کی گئی۔

مزید پڑھیں : بھارت: مشتعل ہجوم نے 8 سالہ لڑکی کے ریپ میں ملوث ملزم کو قتل کردیا

اس سے قبل الٰہ آباد ہائی کورٹ نے سی بی آئی کو کلدیپ سنگھ سینگر کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا، جیسا کہ ملزم کے حوالے سے کہا جارہا تھا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اپنا اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔

متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا کہ ایم ایل اے نے اپنی رہائش گاہ پر 4 جون 2017 کو اسے ریپ کا نشانہ بنایا تھا جہاں وہ ایک رشتہ دار کے ساتھ ملازمت کی تلاش میں گئی تھی۔

رواں سال فروری میں متاثرہ لڑکی کے اہل خانہ نے عدالت سے ایم ایل اے کلدیپ سنگھ کا نام ریپ کیس میں شامل کرنے کے لیے رابطہ کیا تھا۔

متاثرہ خاندان کے اس اقدام کے بعد پولیس نے 3 اپریل کو لڑکی کے والد کے خلاف آرمز ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے انہیں 5 اپریل کو جیل منتقل کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیری لڑکی کے ریپ اور قتل کے واقعے نے بھارت کا سر شرم سے جھکا دیا، مودی

متاثرہ لڑکی نے 8 اپریل کو طاقتور افراد کے دباؤ اور غیر ضروری الزامات پر وزیراعلی ہاؤس کے سامنے خود کشی کی کوشش کی تھی اور اس کے اگلے ہی روز متاثرہ لڑکی کے والد جیل میں جاں بحق ہوگئے، جن کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کی ہلاکت قید کے دوران شدید زخموں کے باعث ہوئی۔

دوسری جانب ریاستی حکومت نے ریپ کیس میں اپنے ایم ایل اے کے ملوث ہونے پر شرمندگی کا سامنا کرنے کے بعد مذکورہ معاملہ تفتیش کے لیے سی بی آئی کو بھجوادیا تھا۔

اس رپورٹ کی تکیمل میں ٹائمز آف انڈیا سے بھی مدد لی گئی


یہ خبر 15 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں