پاکستان دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے بچوں میں ٹائیفائیڈ سے بچاﺅ کی ویکسین مہم کا اعلان کیا ہے تاکہ اس وبا پر قابو پایا جاسکے جس پر اب دوا کا اثر ختم ہوتا جارہا ہے۔

برطانوی روزنامے ٹیلگراف کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ نئی ویکسین بچوں کی معمول کی ویکسینیشن شیڈول میں شامل کی جائے گی اور اس کی وجہ ٹائیفائیڈ کے ایسے جراثیموں کا پھیلنا ہے جو کہ 5 مختلف اقسام کی اینٹی بایوٹیکس ادویات کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔

ٹائیفائیڈ کی یہ قسم نومبر 2016 میں سب سے پہلے حیدرآباد میں دریافت ہوئی تھی اور پھر ملک بھر میں پھیل گئی جس کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک اور 800 بیمار ہوئے۔

چونکہ ٹائیفائیڈ خوراک اور پانی کے ذریعے تیزی سے پھیلتا ہے خصوصاً ایسے مقامات جہاں نکاسی آب کا نظام ناقص ہو، تو طبی ماہرین کو خدشہ تھا کہ اس بیماری کے وہ جراثیم جن پر دوائیں بے اثر ثابت ہورہی ہیں، بڑے پیمانے پر پاکستان میں لوگوں کو متاثر کرسکتے ہیں بلکہ دیگر ممالک تک بھی پھیل سکتے ہیں۔

اینٹی بایوٹیکس ادویات کے خلاف جراثیموں کی مزاحمت پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان اور بھارت میں بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔

مزید پڑھیں : پاکستان میں ٹائیفائیڈ کی خطرناک قسم پھیلنے کا خدشہ

اب حکومت پاکستان نے اس ٹائپ بار۔ ٹی سی وی ویکسین کو استعمال کرنے کے لیے فنڈز کے حصول کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری عالمی ادارہ صحت نے رواں سال کے شروع میں دی تھی، جو کہ ویکسین الائنس جی اے وی آئی کی جانب سے سامنے آئی۔

رواں ماہ کے شروع میں جی اے وی آئی نے اعلان کیا تھا کہ وہ اب تک ترقی پذیر ممالک کے لیے 8 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کا فنڈ اکھٹا کرچکی ہے جس کا مقصد وہاں ویکسین کو متعارف کرانا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق یہ ٹائیفائیڈ ویکسین سابقہ ورژنز سے زیادہ موثر ہے اور 6 ماہ تک کی عمر کے بچوں کو دی جاسکتی ہے۔

حکومتی ایکسپینڈڈ پروگرام فار Immunization (ای پی آئی) کے پروگرام منیجر ڈاکٹر سید ثقلین احمد گیلانی نے ویکسین الائنس کی جانب سے فنڈز کے اعلان کو 'بہترین موقع' قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: حیدرآباد: ٹائیفائیڈ بخار کےخلاف انٹی بائیوٹکس ادویات غیر موثر

ان کا کہنا تھا ' ٹائیفائیڈ ویکسین ہمارے بچوں کے اندر اس مرض کے خلاف دفاعی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے ایک اور قدم ہے'۔

کراچی کی آغا خان یونیورسٹی کے ماہرین نے سب سے پہلے ٹائیفائیڈ کے ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والی قسم کو شناخت کیا تھا، جس کا تجزیہ برطانیہ میں بھی کیا گیا۔

اس نئی ویکسین کو رواں سال جنوری میں حیدرآباد میں ایک ہنگامی مہم کے دوران بھی استعمال کیا جاچکا ہے۔

آغا خان یونیورسٹی کی پیڈیا ٹرکس کی ایسوسی ایٹ پروفیسر فرح قمر کے مطابق ویکسینیشن ہی اس سپر بگ کے خلاف موثر آپشن ہے اور چونکہ یہ ویکسین محفوظ ثابت ہوچکی ہے تو ہمیں اپنی کوششوں کو بڑھا کر اسے پاکستان کے ہر بچے تک توسیع دینا چاہیے'۔

تبصرے (0) بند ہیں