معاشی ماہرین نے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں ڈومیسٹک طلب میں مسلسل اضافے، بہتر سیکیورٹی حالات، صنعتی علاقوں میں بہتر بجلی کی فراہمی، بہتر نظام ترسیل اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چینی سرمایہ کاری کے نتیجے میں رواں برس پاکستان کی معاشی ترقی شرح 5.8 فیصد تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائے گی۔

واضح رہے کہ 05-2004 میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح 7.2 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔

یہ پڑھیں: چیف جسٹس نے حکومتی ایمنسٹی اسکیم کے جائزے کا عندیہ دے دیا

اس حوالے سے بتایا گیا کہ 14-2013 کے مالی سال کے بعد اقتصادی ترقی میں پھیلاؤ دیکھنے میں آیا کیونکہ گزشتہ پانچ برس میں جی ڈی پی گروتھ ریٹ 4.8 فیصد رہا جبکہ 2008 سے 2013 کے درمیان اوسطاً معاشی ترقی 2.8 فیصد رہی۔

اکاؤنٹنگ فرم (کے پی ایم جی) ہادی اینڈ کو کے پارٹنر امین ملک کا کہنا تھا کہ ‘میرا خیال ہے کہ رواں برس اقتصادی اشاریوں میں بہتری آئے گی، حالیہ بجٹ میں بڑے پیمانے پر ٹیکس میں کٹوتی سے نئی سرمایہ کاری کے رحجان میں اضافہ ہوگا اور گرین منصوبوں میں توسیع ہو گی’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘حکومت کی جانب سے غیر قانونی ذرائع سے حاصل آمدنی کو رئیل اسٹیٹ میں چھپانے کے راستے بند کرنے سے سرمایہ کار مختلف صنعتی شعبوں کی جانب آئیں آگے اور یہ اقتصادی ترقی کی شرح میں اضافے کا سبب ہو گا’۔

امین ملک نے خدشہ ظاہر کیا کہ بیرونی کھاتوں کی مد میں اقتصادی ترقی کو تھوڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سیاسی و اقتصادی محاذ: ملکی معیشت کے اگلے 10 برس فیصلہ کن قرار

ان کا کہنا تھا کہ ‘ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھا کر چینی اور روسی سرمایہ کار مارکیٹ میں سرمایہ لگائیں گے اور ایکسپورٹ میں اضافے سے روپے کی قدر مستحکم ہوگی اور اس طرح بیرونی کھاتوں سے جوڑے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے’۔

اس حوالے سے اے کے ڈی سیکیورٹیز کے معاشی ماہر علی اصغر نے موجودہ اقتصادی ترقی کی شرح کو عارضی اور مختصر المعیاد قرار دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ موجودہ اقتصادی ترقی کی وجہ درآمدی اشیاء میں تیزی اور بڑھتی ہوئی کھپت سے ہے اور اس طرح کی اقتصادی بہتری مستحکم نہیں ہوتی’۔

واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے دوسری سہ ماہی رپورٹ میں بھی بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: سال 2017 پاکستانی معیشت کے لیے کیسا رہا؟

میکرو اکنامکس کے استحکم کو درپیش مسائل کی وجہ ادائیگیوں میں عدم توازن کا بڑھتا ہوا رحجان ہے، خسارہ تیزی سے زرمبادلہ کے ذخائر ختم کردے گا اور اقتصادی ماہرین عارضی بنیادوں پر عالمی منڈی سے جوڑے رہیں گے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘موجودہ اقتصادی ترقی کی ایک بڑی وجہ بیرونی قرضے ہیں لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے دروازے پر دوبارہ دستک دینا پڑے گی، اگر ہم نے بیل آوٹ کےلیے مزید فنڈز واپس کیے تو ہمیں اگلے کئی برسوں تک منفی نتائج کا سامنا رہے گا’۔

دوسری جانب لاہور کے ایک ماہر اقتصادیات نے واضح کیا کہ ‘موجودہ اقتصادی ترقی کے اشاریے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے رخصت ہونے کے ساتھ ہی غائب ہو جائیں گے’۔


یہ خبر 30 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں