کراچی کی مختلف عدالتوں میں 12 مئی 2007 کو رونما ہونے والے پرتشدد واقعات سے متعلق مقدمات سماعت کے منتظر ہیں تاہم مقدمات کی پیروی میں پولیس کی عدم توجہ غیر معمولی ہوگئی ہے۔

خیال رہے کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب وکلا تحریک اپنے عروج پر تھی، 12 مئی 2007 کے روز اس وقت کے غیر فعال چیف جسٹس کی کراچی آمد کے موقع پر سیاسی جماعتوں کے درمیان مسلح کشیدگی میں وکلا سمیت کم از کم 50 افراد ہلاک جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ 12 مئی کیس: مفرور 16 ملزمان کی گرفتاری کیلئے اشتہار

وکلاء اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے شہر کے مختلف پولیس اسٹیشنز میں متعدد مقدمات درج کرائے گئے جن میں صرف 7 کیسز پر سماعت کا آغاز ہوا جو انتہائی سست روی کا شکار ہیں۔

اس حوالے بتایا گیا کہ 7 مقدمات میں سے 4 انسداد دہشت گردی کی عدالت (ٹو) اور 3 انسداد دہشت گردی کی عدالت (تھری) میں زیر سماعت ہیں جبکہ تفتیش کاروں کی جانب سے تحقیقات میں کوئی قابل ذکر پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔

مذکورہ مقدمات میں غیرمعمولی پیش رفت اس وقت سامنے آئی تھی جب رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما اور سندھ اسمبلی کے سابق رکن کامران فاروق کو گرفتار کیا تھا۔

کامران فاروق 12 مئی 2007 اور 16 دسمبر 2016 کے متعدد مقدمات میں مرکزی ملزم کی حیثیت سے مطلوب تھے۔

مزید پڑھیں: سانحہ 12 مئی : وسیم اختر کا اعترافی بیان متنازع ہوگیا

خیال رہے کہ کامران فاروق نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو 20 دسمبر کو اپنے اعترافی بیان میں اقرار کیا تھا کہ ایم کیو ایم کی قیادت بشمول ڈاکٹر فاروق ستار 12 مئی 2007 کے پرتشدد واقعات میں ملوث تھی۔

کامران فاروق پر دستی بم اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے دو مقامات بھی درج تھے۔

12 مئی کے واقعات کے حوالے سے کامران فاروق نے اعتراف کیا کہ پارٹی قیادت نے 10 مئی 2007 کو نائن زیرو ہیڈکواٹر میں ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں تمام سیکٹر انچارجز کو ہدایت کی تھی کہ کراچی کے وکلاء کی جانب سے معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو استقبال دینے کی تمام تر کوششیں ناکام بنا دیا جائے۔

کامران فاروق نے حلفیہ اقرار کیا تھا کہ انہوں نے مسلح ساتھیوں کے ساتھ مل کر تمام مرکزی شاہرائیں بلاک کیں اور فائرنگ کر کے متعدد افراد کو زخمی کیا۔

دوسری جانب ایم کیو ایم کے ترجمان نے کامران فاروق کے بیان کو مسترد کیا لیکن رینجرز کے وکیل کا اصرار ہے کہ کامران فاروق کا بیان تاحال اہم ثبوت ہے۔

یہ پڑھیں: سانحہ 12 مئی: ملک بھر میں وکلا کا یوم سیاہ

رینجرز کے محکمہ پراسیکیوشن کے سربراہ ایڈووکیٹ ساجد محبوب شیخ نے ڈان کو بتایا کہ ‘کامران فاروق نے اعترافی بیان دو برس قبل دیا تھا جو قانونی تقاضوں کے اعتبار سے اہم ہے، جو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کیا گیا’۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق انہوں نے بتایا کہ ‘اعلیٰ پولیس افسران ان شواہد کو 12 مئی سے متعلق تمام مقدمات میں پیش کرنے سے قاصر رہی’۔

ساجد محبوب نے مزید بتایا کہ ‘پیپلز امن کمیٹی (پی اے سی) کے چیف عزیر جان بلوچ کا اعترافی بیان بھی موجود ہے جس میں ملزم نے مختلف جرائم میں ہائی پروفائل سیاسی شخصیات اور پولیس افسران کے ملوث ہونے کا اقرار کیا’۔

دوسری جانب جوڈیشل ذرائع نے بتایا کہ 12 مئی 2007 سے متعلق تمام کیسز پری ٹرائل کے مرحلے پر ہیں تاہم کامران فاروق کے اعترافی بیان کی روشنی میں نامزد ملزمان کے نام مقدمات میں شامل کرنا باقی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں