بلوچستان پولیس نے طلبا کو جسمانی سزا دینے کی ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہونے کے بعد کیڈٹ کالج مستونگ کے پرنسپل کو گرفتار کرلیا۔

محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ڈی آئی جی اعتزاز گوریا نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی اور جسٹس حکیم کاکڑ پر مشتمل 2 رکنی بینچ کو بتایا کہ ‘مستونگ کیڈٹ کالج کے پرنسپل جاوید اقبال بنگش کو عدالت کے حکم پر آج گرفتار کرلیا گیا ہے’۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ‘سزا دینے میں ملوث دیگر تمام افراد کو بھی گرفتار کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں’۔

یاد رہے کہ کیڈٹ کالج مستونگ میں مبینہ طور پر پرنسپل کے حکم پر طلبا کو جسمانی سزا دینے کا واقعہ 9 مئی کو پیش آیا تھا جس کے بعد عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز گوریا نے عدالت میں کہا کہ سزا پانے والے تمام طلبا کا طبی معائنہ کرلیا گیا۔

چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی نے ریمارکس دیئے کہ ‘طبی معائنے پر اتفاق نہ کریں اور برائے مہربانی عدالت کو فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے اندراج کے حوالے سے آگاہ کریں’۔

اس موقع پر ڈی آئی جی نے عدالت کو یقین دلایا کہ ایف آئی آر درج کرلی جائے گئی اور اس کی ایک نقل عدالت کو بھی فراہم کی جائے گی۔

چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے گورنر کے پرنسپل سیکریٹری سجاد بھٹہ کو ہدایت کی کہ وہ ‘انتظامی معاملات پر’ تفتیش میں سربراہی کریں اور ‘جرائم کے حوالے سے’ ڈی آئی جی اعتزاز گورایا دیکھیں گے۔

جسٹس حکیم کاکڑ نے کہا کہ اس واقعے نے طلباء کے والدین کو پریشان کردیا ہے، جن کے بچے کیڈٹ کالج میں داخل ہیں اور اب دیگر اس ادارے میں اپنے بچوں کو داخل کرنے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

عدالت نے دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے کی رپورٹ جلدی جمع کرنے کی ہدایت کی اور سماعت بد ھ کے روز کے لیے ملتوی کر دی۔

سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والی ویڈیو بنانے والے کے حوالے سے فوری طور پر معلوم نہیں ہوسکا تاہم مستونگ پولیس کے ایک اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ایک طالب علم نے ویڈیو بنائی ہے۔

ایک طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ کیڈٹ کالج کے طالب علموں کو پرنسپل کے حکم پر اساتذہ کے بجائے کالج کے سابق طلبا تشدد کرتے تھے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘اس سے قبل ایک طالب علم نے پرنسپل کے بیٹے کو تھپڑ مارا تھا اور یہ اس کے بدلے کا حصہ تھا’۔

طلبا پر تشدد کے حوالے سے سیاسی جماعتیں، انسان حقوق کی تنظیموں کے رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے اراکین کی جانب سے شدید ردعمل دیا گیا۔

خیال رہے کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں جسمانی تشدد پر پابندی عائد کی جاچکی ہے لیکن اس کے باوجود ایک اہم ادارے میں طلبا پر ہونے والے تشدد کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں