اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے امریکا میں قید پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق گردش کرنے والی رپورٹس پر اٹارنی جنرل اور امریکا میں پاکستانی سفارتخانے کو ہدایت کی ہے کہ 3 دن کے اندر عافیہ صدیقی سے زندگی سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی زندگی اور پاکستان منتقل کرنے سے متعلق ان کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت میں فوزیہ صدیقی نے بتایا کہ میڈیا کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ امریکا میں پاکستانی قونصل جنرل نے عافیہ صدیقی سے ملاقات کی ہے لیکن جب ان سے اس بات کا سرٹیفکیٹ مانگا گیا تو انہوں نے وہ فراہم نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق افواہیں جھوٹی اور بے بنیاد نکلیں

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عافیہ صدیقی کی زندگی کے بارے میں متضاد اطلاعات آرہی ہیں، اٹارنی جنرل اور امریکا میں پاکستانی سفارتخانہ معلوم کرکے بتائیں کہ عافیہ صدیقی کی کیا حالت ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل کچھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق افواہیں گردش کررہی تھیں،جس کے بعد 23 مئی کو امریکی ریاست ٹیکساس میں موجود پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروق نے کارس ویل، ٹیکساس میں فیڈرل میڈیکل سینٹر (ایف ایم سی ) میں موجود جیل میں عافیہ صدیقی سے 2 گھنٹے تک ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موت سے متعلق گردش کرنے والی افواہیں دم توڑ گئی تھیں اور پاکستانی قونصل جنرل کی جانب سے ان افواہوں کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

ہیوسٹن میں موجود پاکستانی قونصلیٹ جنرل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ گزشتہ 14 ماہ کے دوران پاکستانی قونصل جنرل 4 مرتبہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کرچکی ہیں۔

تاہم اس بارے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بہن کی زندگی اور صحت سے متعلق کسی خبر کی تصدیق نہیں کرسکتیں، کیونکہ اس بارے میں انہیں حکومت پاکستان، وزارت خارجہ اور امریکی جیل حکام نے کچھ نہیں بتایا۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے آن لائن قیدیوں کے اسٹیٹس سے متعلق بتایا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اسٹیٹس زندہ لکھا ہوا ہے اور اگر کسی قیدی کا اسٹیٹس تبدیل کیا جاتا ہے تو امریکی قوانین کے مطابق اہلخانہ کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ نے ڈاکٹر فوزیہ نے مزید بتایا تھا کہ ان کا گزشتہ 2 سال سے عافیہ صدیقی سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور ہزار کوششوں کے باوجود بھی پاکستانی اور امریکی حکام سے انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

عافیہ صدیقی کی کہانی

پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کی کہانی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' سے جڑی کہانیوں میں سب سے اہم ہے، جو مارچ 2003 میں اُس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ کے نمبر تین اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔

خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد مبینہ طور پر 2003 میں ہی عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتہ ہوگئیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’عافیہ صدیقی کی وطن واپسی ممکن نہیں‘

عافیہ صدیقی کو لاپتہ ہونے کے 5 سال بعد امریکا کی جانب سے 2008 میں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

امریکی عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 'عافیہ صدیقی کے پاس سے 2 کلو سوڈیم سائینائیڈ، کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں، جن سے عندیہ ملتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہیں'۔

جب عافیہ صدیقی سے امریکی فوجی اور ایف بی آئی عہدیداران نے سوالات کیے تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کر دی، جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں، جس کے بعد انہیں امریکا منتقل کر دیا گیا جہاں 2010 میں انہیں اقدام قتل کا مجرم قرار دے کر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں