سپریم کورٹ میں میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو تنخواہوں کی تاخیر سے ادائیگی کا نوٹس لیتے ہوئے میڈیا مالکان سے وجوہات طلب کرلی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کی جہاں انھوں نے پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے صدر طیب بلوچ اور پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کی درخواست پر میڈیا ورکرز کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا نوٹس لیا۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ میڈیامالکان، ورکرزکے کفیل بنیں مالک نہ بنیں اور صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو 10 دن کے اندر تنخواہ ادا کی جائے۔

انھوں نے کہا کہ میڈیا مالکان تحریری جواب جمع کرائیں کہ تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کیوں کرتے ہیں اور تنخواہوں میں اضافے کے معاملات اگلی سماعت پر طے کریں گے۔

میڈیا کمیشن کیس کے درخواست گزار سنیئرصحافی حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ ویج بورڈ ایوارڈ پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے مگر فیصلے پر عمل نہیں ہو رہا جس پر چیف جسٹس نے کہا عمل درآمد کا معاملہ متعلقہ فورم پر چل سکتا ہے۔

حامد میر نے عدالت سے استدعا کی کہ میڈیا کمیشن کی سفارشات پر عمل کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ میڈیا کمیشن نے سفارش کی تھی کہ پیمرا کو حکومتی کنٹرول سے آزاد ہونا چاہیے جس کے بعد حکومت نے قانون میں ترمیم کے ذریعے پیمرا کو آزاد کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے کمیٹی کام کررہی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا اڑھائی سال پہلے کمیشن کی رپورٹ آچکی ہے لیکن حکومتی کمیشن نے اب تک کام مکمل نہیں کیا، پیمرا کو کسی کے زیراثر نہیں ہونا چاہیے اور اس کو واقعی ایک آزاد ادارہ ہوناچاہیے۔

انھوں نے کہا کہ جج مشہوری کے لیے کام کرے تو عدلیہ.کوتباہ کردیتاہے، کھانے پینے کی چیزوں پر بھی ایکشن لیتے تھے تو پنجاب حکومت اشتہار دیتی تھی، اشتہارات کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اطلاعات تک رسائی بنیادی حق ہے، کسی چینل کو فارن فنڈنگ ثابت ہوئی تواس کا لائسنس منسوخ کردیں گے، سرکاری اشتہارات کوریگولیٹ کرنا ہوگا، لاہور میں سیف سٹی پر لمبے لمبے اشتہار چلائے گئے۔

انھوں نے کہا کہ کیوں نہ چینلز سے پوچھا جائے کہ پنجاب حکومت نے انھیں کتنے پیسے دیے اوراشتہارات جاری کرنے کا کیا طریقہ کار ہے، اشتہارات پر صوبائی محکمہ اطلاعات کوبھی سنیں گے۔

عدالت عظمیٰ نے میڈیامالکان کے علاوہ وزارت اطلاعات سے الیکٹرانک میڈیا کے ویج بورڈ اور قانون سے متعلق تجاویز پر مشتمل جواب بھی طلب کیا۔

میڈیا کمیشن کیس کی سماعت 20 فروی تک ملتوی کردی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Feb 08, 2018 06:14pm
پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں برسوں سے کام کرنے والے والے مگر کاغذات میں تاحال کنٹریکٹ ملازمین کے بارے میں بھی بات کی جائے۔۔ ان کا بھی بہت ہی زیادہ برا حال ہے، سب سے برا تو یہ کہ کوئی بھی جاب سیکیورٹی نہیں، مالکان نے جب چاہا باہر پھینک دیا، ویج بورڈ کس بلا کا نام ہے کچھ معلوم نہیں، برسوں سے کام کرنے والوں کو مستقل کیوں نہیں کیا جاتا، گیارہ ماہ بعد کنٹریکٹ کی تجدید کے نام پر احسان کردیا جاتا ہے، تنخوہواں میں اضافہ کیوں نہیں کیا جاتا، انگریزی اخبار کے لیے کام کرنے والوں کو زیادہ تنخواہیں کیوں دی جاتی ہیں، آنے کی ٹائمنگ تو ہوتی ہیں مگر جانے کا نہیں، یونین کا نام و نشان تک نہیں، ایکسکلوز خبر کے نام پر رپورٹرز کو۔۔۔، حالانکہ آج کل ہر کسی کے پاس موبائل موجود ہے جس سے کوئی خبر خاص خبر نہیں رہی۔۔ اسی طرح دیگر لوئر اسٹاف کو بھی حکومتی منظور شدہ تنخواہوں سے بھی کم تنخواہیں دی جاتی ہیں، صحافتی تنظیموں سے گزارش ہے کہ وہ صرف صحافی کی بات نہ کریں بلکہ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں کام کرنے والے تمام ملازمین کی بات کی جائے۔ اب سپریم کورٹ سے امید ہے کہ وہ ان تمام معاملات کو احسن طریقے سے نمٹا دینگی۔