اسلام آباد: پاکستان میں قلتِ آب کے پیش نظر اقوام متحدہ کے ’ڈیکیڈ آف ایکشن 28-2018’ منصوبے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت کراچی، گوادر، پسنی، جیوانی، کیٹی بندر اور دیگر ساحلی علاقوں میں سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) کی جانب سے منظور شدہ پہلی نیشنل واٹر پالیسی کے حوالے سے منعقد اجلاس کا اہتمام پلاننگ کمیشن نے کیا جس میں ملکی اور غیرملکی ماہرین نے شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پانی کی قلت کی باتوں میں کوئی سچائی نہيں؟

کانفرنس میں بتایا گیا کہ ‘پہاڑوں سے آنے والا پانی بھارت، افغانستان اور چین کے زیر استعمال ہے جس کے باعث پاکستان کو آئندہ برسوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوگا۔

اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی اور مسلسل صنعتی ترقی، آبادی میں اضافہ، کھانے کے اطوار میں تبدیلی کے باعث بھی پانی کے وسائل میں کمی آرہی ہے۔

اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ کوئٹہ اور لاہور میں زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے جبکہ 43 میں سے 37 نہری علاقوں میں پانی بہت کم ہو چکا ہے۔

مزید پڑھیں: ‘دنیا کے 5 ارب لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہوسکتا ہے‘

مزید بتایا گیا کہ زیرِزمین پانی کا معیار مسلسل کان کنی کے باعث خراب ہو رہا ہے جبکہ زمین پانی صنعتی فضلہ اور سیوریج کے پانی کے باعث زہریلا ہو چکا ہے۔

متعلقہ حکام نے میں بتایا کہ خراب پانی کی وجہ سے عام طور پر ملیریا اور ٹائیفائیڈ بھی ہوتے ہیں لیکن اب ایسی اطلاعات ہیں کہ ضلع گجرانوالا اور بہاول نگر میں ہیپاٹائٹس تیزی سے پھیل رہا ہے۔

علاوہ ازیں دریائے راوی اور ستلج جبکہ ملیر اور لیاری ندی سیوریج سے آلودہ ہے اور اسلام آباد کا تازہ پانی بھی مضر صحت ثابت ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پانی کی ہنگامی صورت حال، سندھ اور اداروں میں تلخ جملوں کا تبادلہ

کانفرنس میں زور دیا گیا کہ کراچی اور گوادر میں پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سمندری پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹ سے قابلِ استعمال بنایا جائے۔

اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ سولر انرجی کے ذریعے سمندری پانی کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے کیٹی بندر، ٹھٹھہ، بدین، پسنی، جیوانی میں ٹیکنالوجی کے ذریعے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔


یہ خبر 21 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں