آئندہ انتخابات کے قریب آتے ہی صنفی مساوات اور ترقی نسواں کے لیے کام کرنے والے ادارے عکس نے صنفی اعتبار سے غیرجانب دار اور صنفی حساسیت کے حوالے سے مواد کی تخلق کے لیے متحرک کوششوں کا مطالبہ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عکس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ کیا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خواتین یا ان کے مسائل کو میڈیا میں اٹھایا گیا ہو؟ کیا ہم خواتین کو ان مسائل پر بطور ماہرین، رائے ساز اور تجزیہ نگار بات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں؟ یا ہمیں یہ رپورٹس ملتی ہیں کہ خواتین کس طرح ان الیکشن کا حصہ بننے جارہی ہیں جہاں انہیں ماضی میں ووٹ ڈالنے کی بھی اجازت نہیں تھی؟ یا کیا کبھی یہ تجزیہ ملتا ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود خواتین نے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں گزشتہ 5 سال میں کیسی کارکردگی دکھائی ہے؟ تو اس کا واضح جواب ہے ’نہیں‘۔

مزید پڑھیں: ’پاکستان میں خواتین، اقلیتوں اور صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ‘

پریس ریلیز کے مطابق 24 گھنٹے پاکستانی نیوز چینلز میں یا پھر اخبارات کی اشاعت میں الیکشن کے حوالے سے مردوں کا مواد مردوں کے لیے مرد ہی چلاتے ہیں، ان میں خواتین کا ذکر تب سامنے آتا ہے جب کسی سیاسی جماعت یا اس کے سربراہ پر کرپشن کا الزام عائد ہوتا ہے یا پھر کسی سیاسی جماعت میں ٹکٹ کے دینے کا مسئلہ سامنے آتا ہے، تمام وقت اور جگہ اہم مواد کو دی جاتی ہے لیکن یہ پہلے سے بہت زیادہ زیرِ بحث ہوتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟

پریس ریلیز میں کہا گیا کہ حتیٰ کہ ذرائع ابلاغ میں ایک بڑی تعداد اینکرز اور نیوز کاسٹرز کی موجود ہے، لیکن مرد حضرات ہی مواد کے حوالے سے فیصلہ کرتے ہیں جو خبروں اور تجزیوں میں چلتا ہے، لہٰذا یہ آسان ہے کہ خواتین کے مسائل کو ’کنارے‘ پر لگادیا جائے۔

عکس ریسرچ اور پبلکیشن سینٹر کے مطابق پاکستان کی تقریباً آدھی آباد پر مشتمل خواتین زیادہ تر دباؤ میں رکھی جاتی ہیں اور انہیں غیر تسلی بخش نمائندگی دی جاتی ہے، اور اسی تناظر میں صنفی اعتبار سے غیرجانب دار اور صنفی حساسیت کے حوالے سے مواد کی تخلق کے لیے متحرک کوششوں کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب: ’غیرت کے نام‘ پر خاتون سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ قتل

عکس کا یہ اقدام اس کے میڈیا میں صنفی مساوات اقدام کا ایک حصہ ہے جو گزشتہ ماہ مئی میں اٹھایا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس اقدام کے تحت پاکستانی میڈیا کی حساسیت کے اپنے تجربے کو اپنی نوعیت کے پہلے خواتین میڈیا شکایت سیل (ڈبلیو ایم سی سی) کو فعال کرکے بروئے کار لانے کا عہد کیا، تاکہ نیوز میڈیا سے صنفی فرق کو ختم کرنے کے لیے سرگرم میڈیا صارفین اپنا کردار ادا کر سکیں۔

اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے عکس نے مواصلاتی میڈیا صنفی مساوات اسکورکارڈ، انسٹاگرام پر #EndMediaSexism مہم اور خط نویسی مہم ’یہ ٹھیک نہیں ہے‘ (This is NOT OK) کا سہارا لیا ہے تاکہ اس کے ذریعے ذرائع ابلاغ میں مواد کے تخلیق کنندہ اور اس کے صارفین کو مشغول کروا کے پاکستان کے نیوز میڈیا میں صنفی مساوات کا ادراک کیا جانا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں