اسلام آباد دنیا کے ان چند دار الحکومتوں میں سے ایک ہے جو کہ کسی نیشنل پارک کے ساتھ قائم ہیں۔ مگر خوابوں کی اس زمین میں ہر وقت شیطانی منصوبے بھی پنپتے رہتے ہیں۔

ہر سال مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں کئی آتشزدگیاں ہوتی ہیں۔ بہار میں آتشزدگی پرندوں کے گھونسلے جلا دیتی ہے اور چھوٹے روڈینٹس، رینگنے والے اور ممالیہ جانوروں کو ہلاک کر دیتی ہے۔ زمین پر موجود کوئی بھی چیز جل کر راکھ ہوجاتی ہے۔ ایک دفعہ جب جنگل میں آگ بھڑک اٹھے تو اسے تباہی کے علاوہ اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔

پاکستان، بالخصوص مارگلہ کی پہاڑیوں میں لگنے والی جنگل کی آگ تقریباً ہمیشہ انسانی کارستانی ہوتی ہے۔ مارگلہ میں لگنے والی آگ حکام کے ساتھ جھگڑے کی وجہ سے لگتی ہے جبکہ باقی کی آگ لاپرواہ سیاحوں کی وجہ سے لگتی ہے۔

مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے ساتھ قائم دیہات میں 1000 سے زائد بے روزگار نوجوان رہتے ہیں۔ آگ لگنے کے موسم، یعنی عموماً مئی سے جولائی کے درمیان ان میں سے 300 سے 400 نوجوانوں کو فائر فائٹر کے طور پر بھرتی کیا جاتا ہے۔

شہر کے منتظمین کوشش کرتے ہیں کہ ان کی بھرتی میں جتنی ہوسکے، اتنی تاخیر ہو کیوں کہ اس پر کافی اخراجات آتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ ان میں سے کچھ نوجوان جان بوجھ کر موسم کے اوائل میں ہی آگ لگاتے ہیں تاکہ روزگار جلد سے جلد شروع ہو۔

اس کے بعد طاقتور ٹمبر مافیا ہے جسے مبینہ طور پر دار الحکومت میں بااثر لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "یہ مافیا اور ان کے سہولت کار ہیں جو پہلے درخت کاٹتے ہیں اور پھر اپنے اس عمل کو چھپانے کے لیے پورے خالی حصے میں آگ لگا دیتے ہیں۔"

افسر کی رائے بھی لوگوں سے ملتی جلتی ہے۔ ایک ریئل اسٹیٹ ڈویلپر اور ہائیکنگ کے شوقین عزیر رسول کا کہنا ہے کہ "سب جانتے ہیں کہ اس میں کون ملوث ہے۔ وہ درخت بیچتے ہیں، زمین صاف کرتے ہیں اور پھر ہمیں دھوکہ دینے کے لیے یہاں آگ لگا دیتے ہیں۔"

پڑھیے: ’مارگلہ میں ہر سال درختوں کو آگ لگائی جاتی ہے،سی ڈی اے بھی مجرم‘

گزشتہ 17 سالوں میں آتشزدگی کے 320 واقعات میں تقریباً 500 ایکڑ جنگل کو نقصان پہنچا ہے۔ اس سال میں ہی 60 سے زائد دفعہ آگ لگ چکی ہے۔ موسم کی پہلی بڑی آگ دو علاقوں میں رپورٹ ہوئی تھی، پہلی دامنِ کوہ کے پیچھے، اور دوسری سیکٹر ای 8 (نیول ہیڈکوارٹرز) کے پیچھے کلنگر گاؤں کے پاس۔

تشویشناک رفتار سے بڑھتی ہوئی آگ نے فوراً گاؤں کے پاس تین سے چار ہیکٹر کو نگل لیا۔ 50 ہیلی کاپٹروں کی ٹیم کو یہ آگ بجھانے میں دو دن کا وقت لگا۔

کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے ترجمان ملک سلیم کا کہنا تھا کہ وہ آگ کی وجہ کا تعین نہیں کر سکتے۔ مگر مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آگ لگانے والے افراد کو دیکھا ہے۔

مارچ کی آگ کے بعد اپریل کی آگ نے ایک بار پھر ہمیں یاد دہانی کروائی کہ کچھ افراد کس قدر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ تقریباً ہر شام ہی آگ لگی ہوتی تھی، عموماً پہاڑی راستوں کے ساتھ 4 سے 5 جگہوں پر۔

23 اپریل کو پارک میں ایک مشہور ریسٹورینٹ کے پاس کے علاقے میں آگ لگ گئی جو کہ فوراً ہی 40 ایکڑ کے رقبے پر پھیل گئی۔ اس کی وجہ پوچھنے پر سی ڈی اے کے انوائرمنٹ ونگ کے ڈائریکٹر عرفان نیازی نے کہا کہ کبھی کبھی اس طرح کی آتشزدگی میں مقامی لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں جبکہ پارک کے ساتھ قائم ہائیکنگ ٹریلز پر اکثر وہ لوگ آتے ہیں جو لاپرواہی سے سوکھی گھاس میں جلتی سگریٹ پھینک دیتے ہیں۔ سی ڈی اے کو بالآخر وزارتِ دفاع کے ایوی ایشن ونگ سے ہیلی کاپٹروں کی مدد لینی پڑی تھی جس کے نتیجے میں آگ پر 48 گھنٹوں میں قابو پایا گیا۔

اپریل میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں جلنے کی شدت کچھ اس طرح تھی: کم: 192 ایکڑ، درمیانی کم: 120 ایکڑ، درمیانی اونچی: 46 ایکڑ، اونچی: 0.5 ایکڑ۔

ابھی 23 اپریل کی آگ پوری طرح نہیں بجھی تھی کہ مزید آتشزدگیوں نے پارک کو نگل لیا۔ یہ سیدپور دری میں لگی جہاں تقریباً 10 سے 12 ایکڑ کا رقبہ لپیٹ میں آیا۔ ایک کے بارے میں ڈپٹی ڈائریکٹر اختر رسول نے اس وقت کہا تھا: "آگ دو مقامات پر لگی۔ ہم آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر تیز ہواؤں کی وجہ سے مشکل کا سامنا ہے۔"

جانیے: مارگلہ کے پہاڑوں پر مغلیہ دور کی غاریں

صرف مئی کے مہینے میں ہی 50 سے زائد دفعہ آگ لگ چکی ہے۔ حال ہی میں آگ کی شدت کچھ اس طرح رہی۔ کم: 1823 ایکڑ، درمیانی کم: 560 ایکڑ، اور درمیانی زیادہ: 0.02 ایکڑ۔

جنگل کی ان آتشزدگیوں کے نتائج ماحول اور پارک کے آس پاس رہنے والے لوگوں کے لیے خوف ناک ہیں۔ ان سے قدرتی وسائل، بشمول پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ جنگل کی آگ سے ہونے والی تباہی ان قدرتی عوامل کو روک دیتی ہے جس کے ذریعے مٹی بارش کے پانی کو جذب کر لیتی ہے۔

کوئی 1700 ہیکٹر زمین آگ کے ہاتھوں گنوانے کے بعد قدرتی حیاتِ نو کے مرحلے کے ذریعے بحالی کی کوششیں شروع کی گئی ہیں۔ کیے جانے والے اقدامات میں سیڈ بال پراجیکٹ ہے جس میں مقامی درختوں کے بیجوں کو مٹی اور کھاد کے گولے میں ملا کر دھوپ میں سکھایا جاتا ہے اور پھر انہیں جنگل میں بارش کے انتظار میں پھینک دیا جاتا ہے۔ مخصوص علاقوں میں زیرِ کنٹرول حالات میں شجرکاری مہم بھی کی جائے گی۔

آتشزنوں کو آخری درخت کے خاتمے تک اپنی سرگرمی جاری رکھنے پر کوئی تاسف نہیں، مگر شہریوں اور مقامی آبادیوں کی مشترکہ کوششوں سے اس صورتحال پر قابو پانا ممکن ہے۔


انیس الرحمان وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ کے چیئرمین جبکہ مریم ولی خان انٹرن ہیں۔


یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں