نعروں میں جہاں ایک مستی ہوتی ہے، وہیں طنز، مطالبے، شکوے اور کہیں تو دھمکیاں بھی در آتی ہیں۔ رواں، مختصر اور جامع فقرے و مصرع کہیں فقط اظہار ہوتے ہیں تو کہیں کوئی مخصوص پیغام لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ اشتہارات کے علاوہ ان کا سب سے زیادہ استعمال عام انتخابات میں ہوتا ہے۔ نغمگی اور ترنم لیے ہوئے ان نعروں سے ہی پھر سیاسی ترانے بھی تشکیل دیے جاتے ہیں اور کبھی انہی ترانوں سے ’نعرے‘ رواج پا جاتے ہیں۔

جیسے نواز شریف کا وزارت عظمیٰ سے بے دخلی پر یہ شکوہ ’مجھے کیوں نکالا‘ مخالفین نے پکڑ لیا اور پھر خوب طنز کیا۔ اس سے پہلے الطاف حسین کا ایک تقریر میں بچوں کو یہ کہنا ’ایک پپّی اِدھر ایک پپّی اِدھر‘ بھی عام ہوا۔ سابق وفاقی وزیر خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں تقریر کہ ’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے!‘ آج بھی روز مرہ کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ عمران خان کے جلسے میں الفاظ ’تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے‘، مصطفیٰ کمال کا الطاف حسین کے خلاف یہ جملہ ’یار یہ آدمی ہمیں کہاں لے آیا‘، عامر لیاقت کا اپنے پروگرام میں یہ کہنا ’آم کھائے گا آم!‘ بھی مختلف تناظر میں برتا گیا۔

پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں نے ماضی میں عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کیا نعرے لگائے اور اب کیا نعرے لگائے جارہے ہیں اس کی مکمل تفصیل یہاں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں