آج ووٹروں کا دن ہے۔ سیاسی جماعتوں نے لوگوں سے ووٹ مانگنے کی مہم چلائی جو پیر کو 12 بجے کو اختتام کو پہنچی۔ ریاست کے اداروں نے قبل از انتخابات کا منظر نامہ مرتب کیا مگر وقت پر انتخابات کرانے کا مقصد پورا ہوگیا ہے۔

جمہوری کے اندر یا باہر موجود جمہوریت مخالف قوتیں انتخابی فیصلے کو مسخ کرنے کی کوشش کرسکتی ہیں، لیکن پولنگ کے دن صورتحال کو بگاڑنا پہلے کے مقابلے مشکل ہوسکتا ہے۔ ہولناک پرتشدد واقعات نے انتخابی مہم کے مرحلے کو بری طرح متاثر کیا؛ پولنگ عمل کے گرد جو سیکیورٹی کا بے مثال جال بچھایا گیا ہے اس سے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی جاسکتی ہے۔

پاکستانی ووٹرز چاہے جسے بھی ووٹ دیں، کہیں بھی ووٹ ڈالیں، ان کے پاس آج کے دن یہ ثابت کرنے کا موقع ہوگا کہ منتخب کرنے کی طاقت سے وہ انتخابات کی دوڑ کو بری طرح متاثر کرنے والی سازشوں، الزامات اور ناقابلِ تردید مداخلت کا کسی حد تک تو مقابلہ ضرور کرسکتے ہیں۔

بلاشبہ آج کے دن کا بڑی حد تک دارومدار الیکشن کمیشن پاکستان، نگران انتظامیہ اور سیکیورٹی ادارے کے طرزِ عمل پر بھی ہوگا۔ رواں دہائی کے دوران ایک مؤثر الیکشن کمیشن اور غیر جانبدار نگران حکومت کے قیام کے کی خاطر کئی ساری آئینی اور قانونی تبدیلیاں کی گئیں۔ افسوس کہ الیکشن کمیشن کو غیر معمولی اختیارات دینے اور بااختیار بنانے کے بعد بھی ریاستی اثر کے سائے سے نکل نہ سکا۔ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو اب بے مثال انتظامی اور قانونی اختیارات حاصل ہیں۔

تاہم، ابھی تک الیکشن کمیشن بطور ایک ادارہ جمہوری توقعات پر پورا نہیں اترا ہے؛ مگر یہ ادارہ آج کے دن ووٹنگ کے عمل سے لے کر ووٹنگ کی گنتی اور پھر نتائج کے اعلان تک، پولنگ کے عمل کو پرسکون انداز میں انجام دے کر اپنی ساکھ کو کسی حد تک برقرار رکھ سکتا ہے۔ اسی طرح نگران انتظامیہ بھی اس سے پہلے کبھی اتنی زیادہ ظاہر اور متنازع نہیں رہی ہے مگر آج کے دن کے پس منظر میں الیکشن کمیشن کی ہمواری کے ساتھ مدد کر کے بڑے پیمانے پر تبدیلی کا مظاہرہ کرنے کی مدد حاصل ہوسکتی ہے اور شاید نگران نظام کی سبکدوشی کی ضرورت نہ پڑے۔

پولنگ کے دن یہ بھی سوچ سوار رہتی ہے کہ شام 6 بجے کے بعد کیا ہوگا، جب ووٹنگ کا عمل ختم اور گنتی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ ملک کو لاحق سیاسی، اقتصادی،سیکیورٹی اور ایک مدت سے سماجی چیلینجز کے پیش نظر مرکز میں ایک مضبوط مینڈیٹ کی ضرورت ہے، اگرچہ 18ویں ترمیم کے بعد کی وفاقیت میں صوبوں کا کردار اور ذمہ داریاں پہلے سے زیادہ ہیں، اور ممکن ہے کہ حکومت کا مینڈیٹ بھی صوبوں سے ہی ابھر کر سامنے آئے گا۔ اس طرح وفاقیت کے مرکز میں مختلف اقسام کے تناؤ میں کمی تو واقع ہوسکتی ہے مگر قومی سیاسی استحکام کو لاحق رسک نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دو عناصر غالب آسکتے ہیں۔

اگر پی ٹی آئی کی فتح ہوتی ہے تو ان کی اعلان کردہ کرپشن کے خلاف جنگ اسے قانونی اصولوں کے مطابق اور غیرجانبدارنہ بنیادوں پر لڑنی ہوگی۔ مستحکم اور خوشحال پاکستان کے لیے کرپشن کے خلاف جنگ ضروری اور ناگزیر ہے اور اسی لیے یہ بھی ضروری کہ کرپشن کی روکتھام شفافیت اور منصفانہ انداز میں کی جائے۔

اگر مسلم لیگ (ن) فتح حاصل کرتی ہے تو پارٹی کو اپنے سیاسی اور حکومتی ایجنڈے کا مرکز اپنے حقیقی قائد نواز شریف کو نہیں بنانا چاہیے۔ نواز شریف کے مقدمے اور اپیلوں کا عمل ان کی پارٹی کی سیاسی مداخلت سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ جمہوری عمل فرد واحد کے قانونی اور سیاسی مستقبل سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اور اسے آگے بھی اہمیت کا حامل رکھنا چاہیے۔

آخر میں، تمام ہی کو یہ سوچنا چاہیے کہ جمہوریت کی راہ میں رکاوٹیں کیوں پیش آئیں اور کیوں حالیہ برسوں میں جمہوریت نے طاقت اور روح کھوئی۔ اس کے پیچھے جمہوریت مخالف قوتیں ہیں اور ایک سرگرم عدلیہ کو چاہیے کہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور اسی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

اگلی پارلیمنٹ کو جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے میں مسلسل ناکامی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے جمہوریت مخالف قوتوں کی مدد سے سیاسی مخالفین کو کمزور کرنے کے ارادوں جیسے مسائل کا بلاتاخیر حل تلاش کرنا ہوگا۔ تاہم آج کے لیے صرف اک سادہ سا پیغام کہ براہ کرم ووٹ دیں۔

یہ اداریہ 25 جولائی 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں