کراچی: سیاسی جماعتوں کی جانب سے 4 کروڑ 60 لاکھ نوجوانوں سے کیے گئے وعدوں کی بنیاد پر عوام کی بڑی تعداد نے حقیقی تبدیلی کی امیدیں لیے پولنگ اسٹیشنز کا رخ کیا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا کہ نوجوان ووٹرز کی کتنی تعداد نے رائے شماری میں حصہ لیا۔

تاہم نوجوان ووٹرز جنہیں عمومی طور پر ’سوشل میڈیا جنریشن‘ بھی کہا جاتا ہے کا ڈان کی جانب سے ملک کے مختلف مقامات پر انٹرویو کیا گیا اور تمام نوجوان انتخابات کے بعد آنے والی نئی حکومت سے پرامید نظر آئے۔

سیکیورٹی خدشات ہونے کے باوجود کئی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پولنگ اسٹیشنز کے باہر قطار میں اپنی باری کے منتظر تھے۔ نوجوان مسلسل سیلفیز لیتے ہوئے انہیں سوشل میڈیا پر ڈال رہے تھے اور ٹوئٹر پر چلنے والے ٹرینڈز پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔

کراچی کے حلقے این اے 247 کی ووٹر شیرین فاطمہ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ پہلی مرتبہ ہے کہ میں نے ووٹ ڈالا ہے اور اس کے لیے میں نے 2 گھنٹے تک قطار میں انتظار کیا ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ملک کو کرپشن، اداروں کی مضبوطی، تعلیم، استحکام اور سیکیورٹی کے مسائل درپیش ہیں تاہم امید ہے کہ ان کے ووٹ سے بننے والی نئی حکومت اگلے 5 سالوں میں ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کرے گی۔

فاطمہ ہی کی طرح پہلی بار ووٹ دینے والے کئی ووٹرز کا ماننا تھا کہ ان کے ووٹ سے مخلص اور اہل قیادت سامنے آئے گی۔

این اے 256 کے ووٹر اور گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے والے 22 سالہ محمد قاسم کا کہنا تھا کہ ’نئی آنے والی حکومت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی اور مستحکم امن و امان کی صورتحال ترجیح ہونی چاہیے‘۔

مذہبی جماعت کی حمایت کرنے والے 26 سالہ ووٹر نے اپنی رائے میں صرف نوجوانوں کی بات کی اور بتایا کہ آئندہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 10 میں سے 8 نوجوان بیرون ملک جانا چاہتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں میرٹ پر روزگار نہیں ملتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں