لکھاری برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سینئر فیلو ہیں، اور انسپائیرنگ پاکستان نامی ایک ترقی پسند پالیسی یونٹ کے سربراہ ہیں۔
لکھاری برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سینئر فیلو ہیں، اور انسپائیرنگ پاکستان نامی ایک ترقی پسند پالیسی یونٹ کے سربراہ ہیں۔

انتخابی نتائج کو کچھ لوگ 'ڈاکٹرڈ' اور 'انجینیئرڈ' قرار دے رہے ہیں۔ پھر ڈاکٹروں اور انجینیئروں پر مشتمل پاکستانی متوسط طبقہ ان انتخابی نتائج کو 'نئے پاکستان' کی جانب قدم کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ ویسے تو ہارنے والے انتخابات کے دن دھاندلی کے الزامات عائد کر رہے ہیں مگر اصل مسئلہ تو انتخابات سے قبل مبینہ دھاندلی کا ہے۔ ٹریبیونلز انتخابی دھاندلی کا معاملہ تو حل کرسکتے ہیں مگر قبل از انتخابات دھاندلی کا نہیں۔

دھاندلی کے ناقابلِ تردید شواہد میں خفیہ ملاقاتوں یا ٹیلی فون کالز یا پھر رقوم کی منتقلی کی ٹھوس ٹریل ہوں گی جنہیں کسی اندرونی شخص کی جانب سے لیک کیے بغیر حاصل کرنا ناممکن ہے۔ مگر میری طرح شک کرنے والے آج کے انتخابات کی 1990ء کے انتخابات اور اب ثابت شدہ آئی ایس آئی/آئی جے آئی اسکینڈل سے مماثلت کے واقعاتی شواہد پیش کرسکتے ہیں۔ ان میں متنازع برطرفیاں، مسلم لیگ (ن) سے بڑے پیمانے پر اخراج، جانبدارانہ احتساب اور میڈیا پر پابندیاں شامل ہیں۔

ان سب نے ان اشاروں کے طور پر کام کیا کہ اب مسلم لیگ (ن) کو نکال باہر کیا جائے گا جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نئی لاڈلی جماعت ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی خراب حکمرانی کا غصہ جو عموماً نئے نوجوان ووٹروں میں موجود ہے، پی ٹی آئی کی جیت کی وجہ ہے۔ مگر یہ منطق کمزور ہے کیوں کہ پی ٹی آئی کی صوبائی کارکردگی کا ریکارڈ بھی مسلم لیگ (ن) جیسا ہی تھا۔ کچھ اچھی چیزیں تھیں مگر کہیں زیادہ منفی بھی۔ اس کے علاوہ مانا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی نئے اور صاف ستھرے کردار کے حامل لوگوں کے بجائے مسلم لیگ (ن) کی طرح ہی مبینہ طور پر داغدار شہرت رکھنے والے الیکٹیبلز کو میدان میں لا کر جیتی ہے۔

پرستار کہتے ہیں کہ چلو سب سے اوپر موجود بندہ تو ایماندار ہے۔ مگر ہم پر ایسے ایمانداروں نے بھی حکمرانی کی ہے جو خراب حکمرانی کو روکنے میں ناکام رہے، یہاں تک کہ پاکستان کو نقصان بھی پہنچا بیٹھے (غلام محمد، اسکندر مرزا، یحییٰ، بھٹو، ضیاء اور مشرف)۔

تو سادہ سی بات یہ ہے کہ ایک پارٹی جسے کم بدعنوان مگر پنڈی کی لائن سے زیادہ قریب سمجھاتا جاتا ہے، اس نے ایسی پارٹی کی جگہ لے لی ہے جو زیادہ بدعنوان مگر حقیقی طاقتوں کے زیادہ تابع نہیں ہیں۔

مزید پڑھیے: عمران خان کے اقتدار کو خطرہ ’کب‘ اور ’کیوں‘ ہوسکتا ہے؟

مگر پھر بھی ہارنے والوں کے لیے آپشن محدود ہیں کیوں کہ خفیہ حلقوں کی مدد کے بغیر سڑکوں پر احتجاج یا اسمبلی کا بائیکاٹ ناکام ہوجائے گا۔ اس لیے وہ شاید تب حملہ کرنے کا انتظار کریں گے جب پی ٹی آئی کا ہنی مون کا دور ختم ہوجائے گا۔

تحریک انصاف کے لیے بھی آپشن محدود ہیں۔ مددگار انتخابی موسم کے باوجود یہ مبیّنہ طور پر دھاندلی زدہ انتخابات میں ڈھیلے قدموں والے آزاد امیدواروں کو اپنے ساتھ ملانے کے باوجود باریک مارجن والی جیت ہے۔ اس کی اسمبلی صفوں میں اسی طرح کے حالیہ نووارد شامل ہیں جس کی وجہ سے اس کی بنیاد غیر مستحکم ہے۔

اسے شاید کسی بڑی پارٹی کے ساتھ اتحاد نہ کرنا پڑے۔ مگر اس فائدے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ دوسری جماعتیں جلد ہی اسے ٹف ٹائم دینے کے لیے متحد ہوسکتی ہیں اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔

زیادہ تر پالیسی معاملات میں اس کے ہاتھ بندھے ہوں گے۔ بیرونی خساروں میں مسلم لیگ (ن) کی بدانتظامی کا مطلب آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا جو ایسی شرائط عائد کرسکتا ہے جس سے ترقی اور نوکریاں کم ہوجائیں جبکہ مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔

اس کے اچھے علاقائی تعلقات کے قابلِ تعریف مقاصد کو شاید خفیہ حلقوں کی جانب سے ویٹو کردیا جائے۔ امریکا اس سے افغان طالبان کے معاملے میں پیش رفت کی توقع کرے گا۔ قانونی طور پر اس کے ہاتھ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے اور سینیٹ میں صرف سادہ اکثریت ہونے کی وجہ سے بندھے ہوں گے۔

اس کا اچھی گورننس فراہم کرنے کا مقصد اس کی محدود صلاحیتوں کی وجہ سے پابند رہے گا۔ پھر بھی اسے متوسط طبقے کی جانب سے بڑھتے ہوئے مطالبوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ اس نے نئے پاکستان کے وعدے کیے تھے، اور اس کے پڑھے لکھے پرستار بھی پاکستان کی تیز ترقی کی راہ میں حائل اسٹرکچرل مسائل سے لاعلم ہیں۔ چنانچہ یہ بھی بنیادی چیلنجز کو حل کرنے میں شاید مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی طرح ناکام ہوجائے۔

اس کے علاوہ کئی دیگر منفیات بھی سیاست کا حصہ بن چکی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان، اور سیاسی جماعتوں اور غیر منتخب اداروں کے درمیان تلخیاں شدید ہیں۔ اگر ہم سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) کی حالیہ مشکلات کو دیکھیں تو بظاہر غیر منتخب اداروں کی منتخب اداروں کے خلاف اتحاد بنا کر سیاسی نتائج پر اثرانداز ہونے کی قوت بڑھ چکی ہے۔

عدالتوں کا تشخص بھی متنازع ہے اور کئی حساس معاملات پر میڈیا کی آزادی بھی شدید پابندیوں کا شکار ہے۔ اسٹیبلشمنٹ شاید خارجہ اور سیکیورٹی پالیسیاں، یہاں تک کہ سیاست کو بھی کنٹرول کرنے میں بے لاگ ہوچکی ہے۔ انتخابات میں خفیہ اداروں کے کردار کے حوالے سے سوالات دوبارہ اٹھ چکے ہیں۔ اگر عمران خان دانا اور سچے جمہوریت پسند ہوتے تو وہ دوسری جماعتوں سے اچھے تعلقات بنا کر رکھتے تاکہ پی ٹی آئی کو بیرونی مداخلتوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔

قدامت پسند پنجاب کا سیاست پر اثر بڑھ چکا ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں اور تمام غیر منتخب اداروں کی سربراہی پنجاب کے قدامت پسند عناصر کے ہاتھ میں ہے۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے برعکس سندھ اور بلوچستان نے 2013ء میں اعتدال پسند جماعتوں کو اکثریت دلوائی تھی۔ مگر وہاں بھی اور قومی سطح پر بھی اعتدال پسند جماعتوں کی نشستوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بالآخر نئی انتہاپسند جماعتیں سندھ اور پنجاب کی اسمبلیوں میں اپنا راستہ بنا چکی ہیں۔

ان تمام منفی نکات کے خلاف میں صرف بڑی تعداد میں خواتین کے ووٹ (بھلے ہی خواتین امیدواروں کی تعداد کم تھی) اور پُرامن پولنگ (بھلے ہی گنتی کے دوران بہت افراتفری مچی) گنوا سکتا ہوں۔

مزید پڑھیے: پولنگ کے دن اصل مسئلہ کہاں پیش آیا؟

چنانچہ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات کچھ شعبوں جہاں آدھا قدم آگے تھے، وہیں زیادہ تر علاقوں میں 2 قدم پیچھے بھی تھے۔ مجھے امید ہے کہ تحریک انصاف میرے بطور ایک سماجی سائنسدان پیش کیے گئے تجزیے کو غلط ثابت کرتے ہوئے ہمیں ایک نیا پاکستان فراہم کرے گی۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 31 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Sana Aug 02, 2018 05:39pm
Self proclaimed intellectual will be proven wrong after 5 Years IA. We have seen IK govt in KP and Pakistani will see and feel positive thing in years ahead IA.