مزار شریف: افغان حکام نے امکان ظاہر کیا ہے کہ شمالی صوبے جوزجان میں افغان فورسز کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے داعش کے جنگجوؤں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ داعش کے جنگجوؤں کو دہشت گردی، ریپ اور قتل جیسے جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کے باوجود معافی دی جاسکتی ہے۔

افغانستان کے صوبے جوزجان میں کئی ہفتوں سے جاری لڑائی کے بعد داعش سمیت تقریباً 150 جنگجوؤں نے ہتھیار ڈال دیے، جن میں 2 سینئر کمانڈرز بھی شامل ہیں۔

طالبان اور داعش کے درمیان جاری کشیدگی کے باعث حال ہی میں درزاب اور کش ٹیبا کے علاقوں سے ہزاروں شہری نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

ان علاقوں کے رہائشیوں پر داعش کے جنگجوؤں نے مبینہ طور پر وحشیانہ مظالم ڈھائے تھے، وہ خواتین اور بچیوں کو اغوا کرتے اور ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد کچھ کو قتل کردیتے تھے۔

مزید پڑھیں : افغانستان: طالبان اور داعش کے حملوں میں 29 افراد ہلاک

جوزجان کی صوبائی حکومت کے ترجمان محمد رضا غفوری نے داعش کے جنگجوؤں کے حوالے سے بتایا کہ ’درزاب کے علاقے میں داعش کے جس گروہ نے ہتھیار پھینک دیے ہیں انہیں سزا نہیں دی جائے گی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اس گروہ کو قانون اور عدالتی حکام کے سامنے بھی پیش نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ افراد، جنہیں داعش کے کسی شخص سے انفرادی شکایت ہے، تو وہ اپنے معاملات عدالت میں لے جاسکتے ہیں۔

افغان حکام کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ داعش کے جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد نے ایک ساتھ ہتھیار ڈالے۔

ان جنگجوؤں سے منسلک کئی خواتین اور بچوں نے بھی خود کو افغان حکام کے حوالے کردیا۔

ترجمان محمد رضا غفوری نے کہا کہ ’امن کے قیام کے لیے آگے بڑھنے والے حکومت کے مخالفین کو معافی دی جائے گی کیونکہ اگر انہیں عدلیہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو دیگر حریفوں کے ساتھ کیے گئے حکومتی معاہدے ضائع ہوجائیں گے‘۔

دوسری جانب مغرب کی حمایت یافتہ افغان حکومت، اتحادیوں، طالبان اور داعش کے درمیان امن مذاکرات کے لیے افغانستان پر عالمی دباؤ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ داعش کی جانب سے کیے گئے مظالم کے باعث اس بات کے آثار کم ہیں کہ وہ مذاکرات پر آمادہ ہوں۔

یہ بھی پڑھیں : افغانستان: مسجد میں دھماکا، 25 افراد جاں بحق

2001 کی بے دخلی کے بعد ایک مرتبہ پھر سے سخت اسلامی قانون کو نافذ کرنے کے خواہاں گروہ طالبان نے بھی ہتھیار ڈال کر امن کے قیام میں حصہ ڈال دیا ہے اور انہوں نے کہا کہ جوزجان کے علاقے میں ان کا کوئی کنٹرول نہیں۔

افغان وزارت دفاع کے ترجمان محمد رادم منیش نے بتایا کہ فوجی حکام نے اپنا فرض ادا کردیا ہے اب یہ حکومت پر ہے وہ کیا اقدام اٹھاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اپنے ملک اور لوگوں کے محافظوں کے طور پر یہ ہمارا فرض ہے کہ میدان جنگ میں اپنے دشمنوں سے لڑیں، اب وہ ہتھیار ڈال چکے ہیں جس کے بعد ہمارا کام مکمل ہوگیا۔

ادھر جوزجان کے سیکیورٹی کمانڈر جنرل فقیر محمد جوزجانی نے کہا کہ کوئی بھی داعش جنگجو جس نے انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب کیا ہے اسے عدلیہ کا سامنا کرنا ہوگا۔

انہوں نے مفاہمت سے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ جنگجو، جنہوں نے افغان حکومت کے سامنے ہتھیار ڈالے وہ افغانی تھے، جبکہ اس علاقے میں موجود غیر ملکوں جنگجوؤں کو یا تو قتل کیا جاچکا ہے یا وہ طالبان کے قبضے میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے اندیشہ ہے کہ ہتھیار ڈالنے کے بعد یہ لوگ مزید جرائم کا ارتکاب کریں گے کیونکہ یہ ناقابل بھروسہ ہیں‘۔


یہ خبر 5 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں