ماسکو: روس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ طالبان نے آئندہ ماہ روسی دارالحکومت میں ہونے والے مذاکرات میں شمولیت کی دعوت قبول کرلی۔

واضح رہے کہ طالبان کی جانب سے روسی دعوت قبول کرنا 2001 کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی پیش رفت قرار دی جارہی ہے۔

ان مذاکرات کا اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب طالبان پورے افغانستان میں اپنے قدم جمانے کے لیے کوشاں ہیں اور انہوں نے حال ہی میں سب اہم شہر غزنی میں حملہ کیا تھا۔

روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا ہے کہ ماسکو نے طالبان کو 4 ستمبر کو ہونے والے مذاکرات میں دعوت دی ہے اور امید ہے کہ یہ بات چیت ’مثبت‘ ہوگی۔

مزید پڑھیں: روس افغان طالبان کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے، امریکی جنرل

ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے مثبت جواب سامنے آیا ہے اور یہ ان مذاکرات میں حصے لینے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ تاہم افغان طالبان کی جانب سے اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

روسی وزیرِ خارجہ نے اپنے اقدام کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو کا طالبان سے رابطے کا مقصد افغانستان میں روسی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے جبکہ یہ طالبان کے لیے حوصلہ افزائی ہے کہ وہ عسکریت پسندی چھوڑ کر حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہوجائیں۔

انہوں نے ان دعوؤں کو مسترد کیا جس میں افغانستان کی حکومت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ روس طالبان کو شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ حال ہی میں داعش اور طالبان کے درمیان متعدد مرتبہ لڑائی کی اطلاعات سامنے آئیں، جبکہ داعش کو روس کے لیے خطرہ بھی قرار دیا جارہا ہے کیونکہ افغانستان میں موجود اس تنظیم میں ازبک عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: روس نے ’طالبان کی مدد‘ کے امریکی الزامات مسترد کریے

پریس کانفرنس کے دوران روسی وزیرِخارجہ سرگئی لاروف کا کہنا تھا کہ میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا ہے روس طالبان کو اپنے لیے کیسے استعمال کر سکتا ہے؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اپنے تمام تر ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے داعش سے لڑتے ہیں اور اسی کے لیے ہم نے شام کو اس کی جدوجہد میں مدد کی اور عراقی آرمی کو بھی مسلح کیا، تاہم ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان کے شہری بھی ان سے جلد چھٹکارا حاصل کر لیں۔

ایک علیحدہ بیان میں روسی وزیرِخارجہ کا کہنا تھا کہ افغان سفیر عبدالقیوم کوچی کا دعویٰ ایک مبہم رائے پر انحصار کرتا ہے اور یہ روسی کی افغانستان کے لیے پالیسی کو مکمل طور پر مسخ کرتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ قابلِ مذمت ہے کہ افغانی سفیر دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری اور باہمی اتفاق قائم کرنے کے بجائے اپنے اقدامات سے مخالف سمت میں جارہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ’امریکی حکام اور طالبان کے درمیان براہِ راست پہلی ملاقات‘

انہوں نے افغانستان کی حکومت کی جانب سے مذہبی تہوار کے دوران سیز فائر کی پیشکش کو سرہایا اور کہا کہ طالبان کی جانب سے اس کو مسترد کیا جانا قابلِ مذمت ہے۔

روسی وزارت خارجہ نے بتایا کہ 4 ستمبر کو ہونے والے مذاکرات میں روس، افغانستان، پاکستان، چین، بھارت اور ایران کے نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، تاکہ افغانستان میں جتنا جلدی ممکن ہوسکے اتنا جلدی امن قائم کیا جاسکے۔

وزارتِ خارجہ کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ دیگر ممالک میں امریکا کو بھی ان مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت کی طالبان کو جنگ بندی معاہدے کی پیشکش

خایل رہے کہ حال ہی میں طالبان نے اپنی سفارتی پرفائل تیار کی ہے اور انہوں نے قطر میں امریکی حکام سے بات چیت کے لیے ازبکستان اور انڈونیشیا سے اپنے نمائندوں کو وہاں بھیجا۔

یاد رہے کہ طالبان نے افغان حکومت سے براہِ راست بات چیت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ واشنگٹن سے براہِ راست بات کی جائے اور 17 سالہ جنگ کا خاتمہ کیا جائے۔

واضح رہے کہ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملوں کے بعد امریکا کی جانب سے افغانستان پر ہونے والے حملے کی روسی صدر ولادی میرپیوٹن کی جانب سے حمایت کی گئی تھی، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماسکو کا امریکا کے لیے رویہ تبدیل ہوا۔


یہ خبر 22 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں