امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے امریکا میں نمائندے حسام زملط سمیت ان کے اہلخانہ کا امریکا میں رہائشی پرمٹ منسوخ کردیا۔

یہ اقدام وائٹ ہاؤس کی جانب سے گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں قائم پی ایل او کے دفتر کو بند کرنے کے اعلان کے بعد سامنے آیا۔

پی ایل او کے دفتر کے ملازمین کو تمام کاموں کو 13 اکتوبر تک ختم کرکے جگہ خالی کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس (یروشلم) منتقل کرنے کے فیصلے پر احتجاجاً فلسطینی صدر محمود عباس نے حسام زملط کو وطن واپس بلالیا تھا جس کے بعد سے وہ امریکا واپس نہیں آئے۔

مزید پڑھیں: امریکا کا فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے دفاتر کو بند کرنے کا اعلان

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق پی ایل او ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن حنان اشروی نے ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ تمام سفارتی آداب کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کی جانب سے واشنگٹن میں ہمارا دفتر بند کرنے کا اعلان ہی کافی نہیں تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینیوں پر دباؤ ڈالنے اور بلیک میل کرنے کی ایک اور سازش کردی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی حکومت نے واشنگٹن میں قائم فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے دفاتر کو فوری بند کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے فسلطینی تنطیم پر الزام عائد کیا تھا کہ ‘پی ایل او نے اسرائیل کے ساتھ معنی خیز اور براہ راست مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا’۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے فلسطینی مہاجروں کی امداد مکمل طور پر روک دی

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر نوریٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘پی ایل او کی قیادت نے امریکی امن منصوبے کی مذمت کی اور امریکی حکومت کے امن مذاکرات اور دیگر عمل میں شامل ہونے سے انکار کیا جس کی وجہ سے انتظامیہ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ واشنگٹن میں پی ایل او کے دفاتر کو بند کر دیا جائے گا’۔

یاد رہے کہ امریکا نے یکم ستمبر کو فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوامِ متحدہ کے پروگرام کو فراہم کی جانے والی تمام تر امداد روکنے کا بھی اعلان کیا تھا۔

امریکا نے اپنے فیصلے میں فلسطینی مہاجرین کی امداد کرنے والی یونائیٹڈ نیشنز ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کو ’انتہائی ناقص‘ قرار دیا تھا۔

امریکا کے اس فیصلے کے بعد فلسطینی عہدیدار حنان اشروی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے مذکورہ اقدام کو ’ظالمانہ اور غیر ذمہ دارانہ' قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: امداد نہ ملنے کی صورت میں غزہ کے ہسپتال بند ہونے کا خدشہ

جس کے بعد فلسطینی وزارت صحت نے خبردار کیا تھا کہ امریکی امداد بند ہونے سے آئندہ چند روز میں غزہ کے ہسپتال بند ہونے کا خدشہ ہے۔

المقاصد ہسپتال کے ڈائریکٹر باسم ابو لبدہ کا کہنا تھا کہ امریکی فیصلے سے بیت المقدس کے ہسپتالوں کے نیٹ ورک کے 40 فیصد اخراجات متاثر ہورہے ہیں، یہ نیٹ ورک 6 ہسپتالوں پر مشتمل ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق یہ طبی مراکز، غزہ کی پٹی اور اسرائیل کے زیرِ قبضہ مغربی کنارے پر رہائش پذیر فلسطینوں کو کینسر کے علاج کے ساتھ ساتھ دیگر طبی امداد فراہم کرتے ہیں۔

غزہ کی پٹی میں 13 ہسپتال اور 54 طبی مراکز قائم ہیں جو اس علاقے میں رہائش پذیر 20 لاکھ افراد کو 95 فیصد طبی سہولیات فراہم کررہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں