لاہور: پنجاب کی سرکاری جامعات میں سروس قوانین میں سنڈیکیٹ کی جانب سے کی گئی ترامیم، کئی برس گزر جانے کے بعد ہائیر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے غیر فعال ہونے کے سبب ابھی تک چانسلر یا گورنر سے حتمی منظوری نہ حاصل کرسکیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سروس قوانین میں کی گئی ترامیم، نوکریوں کے لیے مقررہ میعار اور لازمی شرائط، اور اس طرح کی متعدد تجاویز گورنر یا چانسلرز کو ارسال کیے جانے کے بجائے سول سیکریٹریٹ میں زیرالتوٰ ہیں۔

ایک سرکاری جامعہ کے چانسلر نے ڈان کو بتایا کہ بیوروکریسی نے یونیورسٹیوں کے اختیارات اور ان کے سنڈیکیٹ کے کردار کو متاثر کیا ہے، مخلتلف شعبہ جات کے سیکریٹریز کوبطور سنڈیکیٹ رکن تعینات کیا گیا ہے اور انہیں پہلے سے ہی ایجنڈا بھی فراہم کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں تعلیمی اختیارات کی چھینا جھپٹی

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یا تو سیکریٹریزاجلاس میں شرکت نہیں کرتے یا کرتے ہیں تو بغیر کسی تیاری کے، اور پھر انتظامیہ کے اختیارات پر بلاجواز اعتراض اٹھاتے ہیں جس سے معاملہ غیر ضروری طول پکڑ لیتا ہے۔

ایک رجسٹرار نے نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پر بتایا کہ کچھ جامعات میں ڈین کی آسامیاں خالی ہیں جنہیں ایچ ای ڈی کو منظوری کے لیے بھیجا گیا تھا لیکن ماہ گزر جانے کے باوجود یہ معاملہ چانسلر تک نہیں پہنچا۔

ان کا کہنا تھا کہ کالجوں اور جامعات کے زیر التوا کام کے بے انتہا بوجھ اور افرادی قوت کی کمی کے باعث ڈپارٹمنٹ فائلوں کا قبرستان بن چکا ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب کی 4 جامعات کے وائس چانسلرز معطل

اس بارے میں پنجاب کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ سروس قوانین کے تحت تمام جامعات سنڈیکیٹ کے کیے گئے فیصلوں پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے چانسلر اور وزیراعلیٰ سے منظوری لینے کی پابند ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح سلیکشن بورڈ کی جانب سے لیے گئے ہر فیصلے پر چانسلر کی منظوری حاصل کرنے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں، اس لیے جامعات کو براہِ راست چانسلر تک رسائی کی اجازت ہونی چاہیے۔

دوسری جانب ایڈیشنل سیکریٹری طیب ضیا کا کہنا تھا کہ فیصلوں میں تاخیر کی ذمہ داری جامعات پر عائد ہوتی ہے، سیکریٹریز سنڈیکیٹ کے رکن ضرور ہیں لیکن انہیں فیصلوں کا اختیار نہیں سنڈیکیٹ میں فیصلے اکثریتی بنیادوں پر کیے جاتیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملک کی 13 جامعات میں پی ایچ ڈی پروگرام پر پابندی

اس کے ساتھ انہوں نے تاخیر کی اطلاعات کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص عدالت میں درخعاست دائر کرتا ہے تو اس پر کارروائی کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔

تاہم حالیہ معاملات میں تاخیر کی وجوہات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کچھ معاملات نگراں حکومت کے باعث تاخیر کا شکار ہوئے جنہوں نے مذکورہ فیصلوں کو آئندہ حکومت کے لیے چھوڑ دیا تھا اور پھر ایچ ای ڈی ے سیکریٹری کی آسامی خالی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کی کہ کچھ معاملات یونیورٹی کے فیصلے عدالت میں چیلنج ہونے کے باعث زیرالتوا ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں