اسلام آباد: ایوانِ بالا (سینیٹ) میں اپوزیشن نشستوں کے سینیٹرز نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات کی پیش کش پر سوالات اٹھا دیئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے کہا کہ بھارتی فورسز مقبوضہ کشمیر میں مسلسل ظلم و ستم کی داستانیں رقم کر رہی ہیں اور کشمیری عوام اپنے حقوق کے لیے سینہ سپرد ہیں، اس صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان کی بھارت کے ساتھ بار بار مذاکرات کی بات ناقابل فہم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان بھارت سے مذاکرات کی بحالی کیلئے پرامید

انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم کا عمران خان کو خط روایت کی کڑی ہے لیکن اسے مذاکرات کی دعوت نہ سمجھا جائے۔

انہوں نے خط میں تحریری زبان ’ہم دہشت گردی پر بات کرنے کے لیے آمادہ ہیں‘ پر بھی تنقید کی۔

سابق سینیٹ چیئرمین کا کہنا تھا کہ یہ سب جانتے ہیں کہ بھارت کا دہشت گردی کے مسئلے پر کیا ردعمل رہا ہے۔

رضا ربانی نے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کے بیان پر بھی شدید تنقید کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کو ایک سال کے لیے روک دیا جائے‘۔

مزید پڑھیں: 'بھارت سے تسلسل کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت ہے'

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد عبدالرزاق داؤد وضاحت دے رہے ہیں کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، لیکن لوگ حیران و پریشان ہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا؟'

رضا ربانی نے سعودی عرب کی جانب سے گوادر میں آئل سٹی تعمیر کرنے کی پیش کش سے متعلق رپورٹس پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ’کیا یہ ایک واحد سپر پاور ہے جسے خوش کیا جارہا ہے، کیا آپ اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے خواہاں ہیں‘۔

انہوں نے واضح کیا کہ ایسا کوئی بھی کام محض بیان بازی سے نہیں ہوگا اور زور دیا کہ معاملہ پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کی جائے۔

اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر عبدالغفور حیدری نے سوال اٹھایا کہ کس بنیاد پر انفرادی حیثیت میں بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے عمران خان کی جانب سے بھارتی ہم منصب کو لکھے گئے خط پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کو پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: تعلقات میں نئے دور کے آغاز پر تیار ہیں، مودی کا عمران خان کو فون

عبدالغفور حیدری نے وزیر اعظم کو محتاط رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان جلد بازی میں فیصلے لے رہے ہیں۔

سینیٹر جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے قرض کی ادائیگی سے متعلق فوری اقدامات اٹھانے کی بات کی۔

انہوں نے واضح کیا کہ 2002 میں 15 ممالک، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور پیرس کلب نے سود سے پاک 12 ارب روپے 15 برس کے لیے فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی۔

انہوں نے حکومت سے کہا کہ طویل المعیاد اقتصادی پالیسی بنائے اور میکرو اکنامک حکمت عملی کے تحت پالیسی پر عملدرآمد کرے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ حکومت مالی بحران کے شکار قومی اداروں کی نجکاری کے لیے بھی اقدام اٹھائے۔


یہ خبر 25 ستمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں