عراق میں خواتین اسٹارز اور سماجی کارکنوں کا سلسلہ وار قتل کیوں؟

اپ ڈیٹ 01 اکتوبر 2018
ایک ہی ہفتے میں 2 معروف خواتین کو قتل کردیا گیا—فوٹو: انسٹاگرام
ایک ہی ہفتے میں 2 معروف خواتین کو قتل کردیا گیا—فوٹو: انسٹاگرام

تشدد زدہ اور خانہ جنگی کے شکار ملک عراق میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ایک سماجی کارکن اور ایک انسٹاگرام اسٹارز خاتون کے پراسرار قتل نے ملک میں بے چینی پھیلادی۔

ایک ہی ہفتے میں 2 خوبصورت اور بہادر خواتین کے قتل کے بعد سابق مس عراق نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں بھی قتل کرنے کی دھمکی ملی ہے۔

2015 میں مس عراق منتخب ہونے والی شیما قاسم نے 30 ستمبر کو آن لائن اسٹریمنگ کے ذریعے روتے ہوئے بتایا کہ انہیں بھی نامعلوم افراد سے قتل کی دھمکیاں ملی ہیں۔

شیما قاسم کے مطابق انہیں مختصراً بتایا گیا کہ قاتلوں کا اگلا نشانہ سابق مس عراق ہیں۔

آن لائن اسٹریمنگ کے دوران ان کے چہرے سے خوف اور مایوسی نظر آ رہی تھی، جب کہ مسلسل رونے کی وجہ سے وہ ٹھیک طرح سے بات بھی نہیں کر پا رہی تھیں۔

شیما قاسم 2015 میں مس عراق رہ چکی ہیں—فوٹو: انسٹاگرام
شیما قاسم 2015 میں مس عراق رہ چکی ہیں—فوٹو: انسٹاگرام

دی بغداد پوسٹ نے بتایا کہ شیما قاسم نے 3 دن قبل ہی ایک انسٹاگرام اسٹار تارا فریس کے پر اسرار قتل کے بعد فوری طور پر سوشل میڈیا کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کرلیا۔

شیما قاسم نہ صرف سابق حسینہ ہیں، بلکہ ان کا شمار عراق کی 6 مشہور ترین سوشل اسٹارز میں بھی ہوتا ہے اور ان کے انسٹاگرام پر تقریباً 30 لاکھ فالوورز ہیں۔

شیما قاسم نے سوشل میڈیا کو خدا حافظ کہنے اور خود کو قتل کی دھمکیاں ملنے کا انکشاف ایسے وقت میں کیا ہے جب 3 دن قبل ہی عراقی دارالحکومت بغداد میں ماڈل اور انسٹاگرام اسٹار تارا فریس کو قتل کیا گیا تھا۔

مڈل ایسٹ آئی کے مطابق 22 سالہ تارا فریس کو بغداد شہر میں گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔

عراق کے محکمہ دفاع نے تارا فریس کو قتل کیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں نامعلوم افراد نے نامعلوم سبب کی بنا پر قتل کیا۔

تارا فریس کو 28 ستمبر کو قتل کیا گیا—فوٹو: انسٹاگرام
تارا فریس کو 28 ستمبر کو قتل کیا گیا—فوٹو: انسٹاگرام

تارا فریس کے بھی انسٹاگرام پر 22 لاکھ سے زائد فالوورز تھے اور وہ سوشل میڈیا پر کافی متحرک تھیں۔

تارا فریس کو بھی ایک ایسے موقع پر اچانک گولیاں مار کر قتل کیا گیا، جب کہ 2 دن قبل ہی عراق کی ایک معروف خاتون سماجی کارکن کو قتل کیا گیا تھا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق خاتون سماجی کارکن سعود العلی کو عراق شہر بصرا کے معروف علاقے میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔

خاتون سماجی کارکن کو ایسے وقت میں ہلاک کیا گیا جب وہ حکومت مخالف مظاہرے کرنے اور بصرہ کے کئی علاقوں میں پانی کی قلت سمیت دیگر اہم سماجی مسائل کے حل کے لیے کوشاں تھیں۔

سعود العلی کو 25 ستمبر کو قتل کیا گیا—فوٹو: بی بی سی
سعود العلی کو 25 ستمبر کو قتل کیا گیا—فوٹو: بی بی سی

سعود العلی کو قتل کیے جانے سے قبل رواں برس اگست میں بھی عراقی دارالحکومت بغداد میں بیوٹی سیلون سے وابستہ 2 خواتین کو قتل کیا گیا تھا۔

نشریاتی ادارے العربیہ کی رپورٹ کے مطابق بغداد میں واقع بیوٹی سیلون کی مالک راشع الحسن اپنے گھر میں پراسرار طور پر مردہ پائی گئیں۔

عراق کے محکمہ صحت نے بیوٹی سیلون کی مالک کی پراسرار ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ راشع الحسن گھر میں ہی مردہ پائی گئیں، تاہم ان کے قتل کی وجوہات جاننے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

راشع الحسن کی پراسرار موت سے ایک ہفتہ قتل ہی بیوٹی سیلون کی مالک رفیع الیسری بھی گھر میں پراسرار طور پر مردہ پائی گئی تھیں۔

راشع الحسن 24 اگست کو گھر میں مردہ پائی گئیں—فوٹو: العربیہ
راشع الحسن 24 اگست کو گھر میں مردہ پائی گئیں—فوٹو: العربیہ

حیران کن بات یہ ہے کہ عراق میں سلسلہ وار خواتین کی پراسرار ہلاکتوں اور قتل کے واقعات کے پیچھے کون ہیں اور ان کی کیا محرکات ہیں، اس حوالے سے حکومت نے تاحال کوئی سراغ نہیں لگایا۔

عراقی حکومت کی جانب سے خواتین کے قتل کی تصدیق تو کی جاتی ہے، تاہم یہ نہیں بتایا جاتا کہ انہیں قتل کرنے والے کون ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں؟

سلسلہ وار خواتین کے قتل پر سوشل میڈیا پر متحرک کئی خواتین خوف زدہ ہیں، جب کہ نوجوان لڑکیوں میں بھی خوف پایا جاتا ہے۔

دوسری جانب یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ خواتین کے سلسلہ وار قتل کے پیچھے شدت پسند تنظیم داعش ملوث ہوسکتی ہے، تاہم اس کے ملوث ہونے کے کوئی واضح شواہد نہیں ملے۔

رفیع الیسری بھی گھر میں مردہ پائی گئی تھیں—فوٹو: لونگارڈیا ڈاٹ کام
رفیع الیسری بھی گھر میں مردہ پائی گئی تھیں—فوٹو: لونگارڈیا ڈاٹ کام

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں