لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

پاکستان میں کسی بھی حکومت کو ملنے والی بُری خبروں کی کوئی انتہا نہیں ہوتی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔

پچھلے ہفتے اس کی پریشانیوں میں جہانگیر ترین کی سپریم کورٹ سے نظرِ ثانی اپیل کا مسترد ہونا بھی شامل تھا۔ اس سے پہلے عدالت انہیں نااہل قرار دے چکی تھی مگر ان کی نظرِ ثانی کی اپیل زیرِ سماعت تھی۔ اب چوں کہ وہ بھی مسترد ہوچکی ہے تو جہانگیر ترین تاحیات نااہل ہوچکے ہیں۔ اس فیصلے سے پی ٹی آئی کو مسلم لیگ (ن) کی طرح سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کی آئینی شق سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی ہمت کرنی چاہیے۔

مگر اس بات کی کم ہی امید ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے معاملات درست کریں گی کیوں کہ اس فیصلے پر کچھ اپوزیشن جماعتوں نے کھلے عام خوشیاں منائیں (جیسے نواز شریف کی اسی طرح نااہلی پر دیگر نے خوشیاں منائی تھیں)۔ اور یہ بھی باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ فیصلے سے پی ٹی آئی کے اندر بھی کئی لوگ بند دروازوں کے پیچھے خوش ہوئے ہوں گے۔

مزید پڑھیے: ابھی تحریکِ انصاف کی حکومت کو 4 جمعے نہیں گزرے کہ۔۔۔

جہانگیر خان ترین (جنہیں جے کے ٹی (JKT) بھی کہا جاتا ہے) نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے اپنی قربت کی وجہ سے خاصی شہرت حاصل کرلی ہے۔ ترین کو سب سے پہلے شہرت مشرف دور میں ملی مگر جب مشرف نے اپنی وردی اتار دی اور مسلم لیگ (ق) پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تو وہ (دوسرے کئی لوگوں کی طرح) اس جہاز سے اتر گئے۔

2013ء کے عام انتخٓابات سے قبل جب پی ٹی آئی اپنے عظیم الشان جلسوں کے ذریعے کافی اہمیت اور توجہ حاصل کر رہی تھی اس وقت (ق) لیگ کے کئی لوگوں سمیت جہانگیر ترین بھی عمران خان کے ساتھ ان کے نئے پاکستان کے سفر میں شامل ہوگئے۔ لیکن منفرد بات یہ ہے کہ بہت ہی کم عرصے میں وہ اس جہاز پر چڑھنے والا واحد شناسا چہرہ بن گئے۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ اس دور میں ان کے علاوہ کون کون پی ٹی آئی میں شامل ہوا تھا؟

پی ٹی آئی اور عمران خان کی سیاست کے متعلق تجزیوں میں ان کے طیارے کو دیومالائی حیثیت حاصل ہوچکی ہے اور شاہ محمود قریشی کے ساتھ ان کی جنگ کو رومیو اینڈ جولیٹ کے گھرانوں مونٹاگ اور کیپیولے کی لڑائی جیسی شہرت حاصل ہے۔ درحقیقت ان کی اپیل خارج ہونے کے بعد کئی تجزیوں کی توجہ اس بات پر تھی کہ اس سب کا فائدہ شاہ محمود قریشی کو کیسے ہوگا کیوں کہ جہانگیر خان ترین کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں۔

یہ دونوں ہی مفروضے غلط ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جہانگیر خان ترین کی نااہلی ایک سخت دھچکا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں لگتا ہے کہ وہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے لیے عمران خان کا پہلا انتخاب ہوتے۔ اس عہدے کی اہمیت کو کمتر تب تک نہیں سمجھا جاسکتا تھا جب تک کہ عثمان بزدار کو اس پر تعینات نہیں کردیا گیا اور اگر انہیں تختِ لاہور نہ چاہیے ہوتا تو جہانگیر ترین شاید مرکز میں ذمہ داریاں نبھانے کے لیے ان کا پہلا انتخاب ہوتے۔

واقعتاً اپنی نااہلی کی وجہ سے وہ 'نئے پاکستان' میں وہ عوامی اور سرکاری کردار ادا کرنے کا موقع گنوا چکے ہیں۔ یہ کتنی بڑی بات ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، مگر وہ ہارنے کے باوجود مقابلے سے باہر نہیں ہیں۔

نہ ہی پی ٹی آئی کے اندر ان کی حیثیت کا دیگر رہنماؤں بشمول شاہ محمود قریشی سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ دونوں رہنما مساوی رسہ کشی کے قریب ترین جنوبی پنجاب میں ٹکٹس کی تقسیم کے معاملے پر آئے کیوں کہ دونوں ہی کی ترجیحات مختلف تھیں۔ قریشی پیپلز پارٹی کے سابق ارکان کو ممکنہ امیدواروں کے طور پر دیکھ رہے تھے جبکہ ترین کے لیے (ق) لیگ کے وہ ارکان زیادہ بہتر انتخاب تھے جن کے ساتھ ان کا پہلے بھی تعلق رہا ہے۔ ملتان میں احمد حسین ڈہر اور سکندر حیات بوسن کے متعلق رسی کشی اس بات کا اعادہ تھی۔ جہانگیر ترین کی ترجیح بوسن تھے کیوں کہ دونوں (ق) لیگ کا حصہ رہ چکے تھے مگر قریشی کی ترجیح ڈہر تھے کیوں کہ انہوں نے پیپلز پارٹی میں وقت گزارا ہوا تھا۔

مگر اس کے علاوہ پارٹی میں ان دونوں کے اثر و رسوخ کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

مزید پڑھیے: عمران خان بھی وفاداروں کو نوازیں گے، یہ امید ہرگز نہیں تھی

پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ اس کی ایک مثال ہے۔ عمران خان کی جانب سے شاہ محمود قریشی کو وزیرِ اعلیٰ بنائے جانے کے امکانات کبھی بھی ان لوگوں کے ذہنوں کے علاوہ اونچے نہیں تھے جنہوں نے یہ غیر حقیقی موازنہ قائم کیا تھا۔ یہ شاہ محمود قریشی کو وفاقی کابینہ میں ملنے والے عہدے سے واضح ہے۔ ایک ایسی جماعت جس کی توجہ اصلاحات پر ہے اور خارجہ پالیسی جس کی ترجیحات میں کم ترین اہمیت رکھتی ہے (کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کو سعودی عرب کے دورے کے لیے کافی سمجھانا بجھانا پڑا تھا)، اس میں وزارتِ خارجہ کا قلمدان بمشکل ہی کوئی اہم عہدہ ہے۔

دوسری جانب جہانگیر ترین ممکنہ طور پر اصلاحاتی اور تبدیلی کے ایجنڈا میں زیادہ قریب سے ملوث ہوں گے؛ وہ پہلے ہی ایک (چھوٹے سے) طوفان کی زد میں ہیں کیوں کہ انہوں نے اس اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق زراعت پر ایک میٹنگ میں شرکت کی تھی۔ شاہ محمود قریشی آس پاس بھی نہیں تھے بھلے ہی انہیں بھی زراعت کے بارے میں ایک دو چیزیں تو پتہ ہی ہوں گی۔

ہمارے نئے وزیرِ خارجہ کے بارے میں کسی نے نہیں سنا کہ انہوں نے 2013ء کے انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی کوششوں میں کوئی کردار ادا کیا ہو۔ مگر جہانگیر ترین وہاں موجود تھے۔ ان سے منسلک تنظیموں کے صحت کے شعبے میں کام کرنے کی خبریں آتی رہتی تھیں اور جب غصیلے ارکانِ صوبائی اسمبلی پی ٹی آئی پر برستے تو سیکریٹری جنرل کو شاید ہی کبھی بخشا جاتا۔

کیا اس میں کسی بھی بات سے اشارہ ملتا ہے کہ شاہ محمود قریشی کو نئے وزیرِ اعظم اور پی ٹی آئی سربراہ کا وہ اعتماد حاصل ہے جو کہ ترین کو حاصل ہے؟ اگر خان صاحب چاہتے تو شاہ محمود قریشی کے لیے پنجاب اسمبلی کا ضمنی انتخاب لڑنا کتنا مشکل کام تھا؟ مگر اس کے بجائے ایک نامعلوم شخص کو صوبے کے سب سے بڑے عہدے پر فائز کر دیا گیا اور علیم خان جو مبیّنہ طور پر جہانگیر ترین کے کیمپ میں ہیں، انہیں سینئر وزیر بنا کر بلدیاتی حکومتوں کا چارج دے دیا گیا جو اصلاحاتی ایجنڈے میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔

اور یہ تو بالکل بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جہانگیر ترین ہی محمد سلمان کو شاہ محمود قریشی کی ناراضگی کے باوجود پارٹی میں لائے تھے، جنہوں نے صوبائی انتخابات میں شاہ محمود قریشی کو شکست دی تھی۔ سلمان کو پیر کے روز نااہل کردیا گیا ہے۔

امکانات یہی ہیں کہ نااہلی کے باوجود جہانگیر ترین پی ٹی آئی کی حکومت میں تمام سطحوں پر اہم کردار ادا کرتے رہیں گے اور وہ لوگ جو پی ٹی آئی کی مذمت کرنا چاہتے ہیں وہ نام لے کر شرم دلاتے رہیں گے جیسے کہ مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرنے والے نواز شریف کی سیاست میں موجودگی پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔

مگر یہ سب باتیں ایک یک نکاتی مسئلے پر روشنی ڈالتی ہیں اور وہ یہ کہ ہمیں قانونی فیصلوں سے سیاست کو تبدیل کرنے کی امیدیں نہیں رکھنی چاہئیے۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔ سیاسی شخصیات، چاہے وہ ہوں جنہیں لوگ ووٹ دیتے ہیں (نواز شریف) یا وہ جو سیاسی رہنماؤں کے قریب ہوں (جہانگیر ترین)، انہیں کسی بھی 'نااہلی' کے ذریعے روکا یا گمنام نہیں کیا جا سکتا۔

مزید پڑھیے: وزیرِ اعظم عمران خان سے چند خدشات اور چند امیدیں

ایسا صرف عوام کے ووٹ یا سیاسی جماعتوں کے اندر فیصلہ ساز ادارے ہی کرسکتے ہیں۔ قانون سیاست کو تہہ و بالا نہیں کرسکتا اور نہ ہی ہمیں اس سے ان مسائل کے حل کی توقع کرنی چاہیے جو جمہوری اداروں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

یقین نہیں آتا تو ضیاء الحق کے پیپلز پارٹی کے بارے میں خیالات کو دیکھ لیں، دیکھیں کہ وہ کس قدر غلط تھے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 2 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں