کراچی بی آر ٹی ریڈ لائن منصوبہ تعطل کا شکار، لاگت میں اربوں کا اضافہ

اپ ڈیٹ 29 اپريل 2024
بس ڈپو کی تعمیر کے لیے رینجرز سے ملیر ہالٹ میں زمین نہ دیا جانا بھی منصوبے میں تاخیر کی ایک وجہ تھی—فوٹو/ فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار
بس ڈپو کی تعمیر کے لیے رینجرز سے ملیر ہالٹ میں زمین نہ دیا جانا بھی منصوبے میں تاخیر کی ایک وجہ تھی—فوٹو/ فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وہ بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) ریڈ لائن منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد کو درپیش مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں جب کہ اربوں روپے کا ٹرانسپورٹ منصوبہ بڑھتی لاگت اور تعمیراتی کام رک جانے کے باعث منجھدار میں پھنسا ہوا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ڈیڑھ سال قبل روکے گئے منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے مخصوص وقت بتائے بغیر ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم منصوبے کی تکمیل کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کر رہے ہیں‘۔

حال ہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ڈان سے بات چیت کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ سے ریڈ لائن منصوبے میں تاخیر اور کھدی ہوئی سڑکوں کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو درپیش پریشانی سے متعلق سوال کیا گیا تو مراد علی شاہ نے جواب دیا کہ ’میں منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ سے لوگوں کو درپیش مسائل سے آگاہ ہوں اور اسے دوبارہ شروع کرنے کے لیے کوشاں ہوں۔‘

اس منصوبے کے کئی حصے ہیں جن میں ملیر ہالٹ ڈپو سے موسمیات اور موسمیات سے نمائش چورنگی تک 2 الگ الگ کوریڈور کی تعمیر ، 2 بس ڈپو اور بائیو گیس پلانٹ/اسٹیشن کی تعمیر اور بسوں کی خریداری شامل ہیں۔

سابق وفاقی وزیر اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما امین الحق نے کہا کہ یہ منصوبہ اس بڑے شہری علاقے میں موجود ہے جہاں 6 یونیورسٹیاں ہیں، ان یونیورسٹیوں کے طلبہ سمیت 20 لاکھ سے زائد افراد کھدی ہوئی سڑکوں، کھلے نالوں اور گرد و غبار کے باعث روزانہ مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔

ایشین ڈویلپمنٹ بینک(اے ڈی بی) کی مالی اعانت سے 79 ارب روپے کا بائیو گیس سے چلنے والی بسوں کا ریڈ لائن منصوبہ 2022 میں شروع کیا گیا تھا اور اسے 2025 میں مکمل ہونا تھا۔

ابتدائی طور پر ٹھیکیداروں نے تعمیراتی کام شروع کیا اور 5 فیصد کام مکمل کرنے کے بعد لاگت میں اضافے، مطلوبہ اراضی کی کمی، ڈیزائننگ میں تاخیر اور حکومت سندھ کے عدم تعاون کے پیش نظر کام روک دیا۔

ٹرانسکراچی بورڈ کی گزشتہ ماہ ہونے والی میٹنگ میں لاگت میں 30 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی جس کے بعد منصوبے کی مجموعی لاگت 79 ارب روپے سے بڑھ کر 103 ارب روپے تک پہنچ سکتی ہے۔

این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شروش لودی نے کہا کہ منصوبے کی راہ میں حائل کئی رکاوٹیں دور کر دی گئی ہیں۔

ڈاکٹر شروش لودی جو ٹرانس کراچی بورڈ کے چیئرمین بھی ہیں، انہوں نے کہا کہ اب بھی منصوبے پر کام دوبارہ شروع ہونے میں ایک ماہ یا اس سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

دوسری جانب ٹرانس کراچی بورڈ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ منصوبے پر کام دوبارہ شروع کرنے میں کم از کم تین سے چار ماہ لگیں گے کیونکہ ٹھیکیداروں کے مزدور عید الفطر منانے کے لیے اپنے آبائی علاقوں کو جا چکے تھے اور امکان ہے کہ وہ عیدالاضحی منانے کے بعد واپس آئیں گے۔

ڈاکٹر شروش لودی نے کہا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے اجازت دے چکا ہے۔

انہوں نے اتفاق کیا کہ بس ڈپو کی تعمیر کے لیے رینجرز سے ملیر ہالٹ میں زمین نہ دیا جانا بھی منصوبے میں تاخیر کی ایک وجہ تھی۔

انہوں نے بتایا کہ ’رینجرز ملیر ہالٹ میں موجود اپنے اڈے کو دوسرے مقام پر منتقل کرنے سے گریزاں تھی جب کہ وہ وہاں سے کراچی ایئر پورٹ کو سیکیورٹی فراہم کر رہی تھی، انہوں نے مزید بتایا کہ اب رینجرز کو دوسری جگہ دے دی گئی ہے، اس لیے اب مجوزہ مقام پر بس ڈپو قائم کیا جا سکے گا۔

ڈاکٹر شروش لودی نے کہا کہ دوسرا بس ڈپو پہلے موسمیات کے علاقے میں تجویز کیا گیا تھا لیکن اب وہ راشد منہاس روڈ پر موجود 16 ایکڑ اراضی پر بنایا جائے گا جہاں پہلے علا دین پارک واقع تھا۔

اس منصوبے کے تحت ایک بائیو گیس پلانٹ قائم کیا جانا ہے، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے ابھی تک پلانٹ کی تعمیر کا ٹھیکہ نہیں دیا ہے۔

ایک اور عہدیداور نے بتایا کہ حکومت سندھ ٹھیکیداروں کے بنیادی مطالبات میں سے ایک کو پورا کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے جب کہ قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) نے مہنگائی اور تعمیراتی سامان جیسے اسٹیل، سیمنٹ اور ڈیزل کی قیمت میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبے کی لاگت میں مطلوبہ اضافے کی منظوری دے دی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں