چہرے سے ہندو نظر نہ آنے پر 2 افراد کو مذہبی پروگرام میں جانے سے روک دیا گیا

15 اکتوبر 2018
جن افراد کو پروگرام میں جانے سے روک دیا گیا، وہ گربا ڈانس کے پروگرام میں شامل ہونا چاہتے تھے—فائل فوٹو: فیس بک
جن افراد کو پروگرام میں جانے سے روک دیا گیا، وہ گربا ڈانس کے پروگرام میں شامل ہونا چاہتے تھے—فائل فوٹو: فیس بک

ویسے تو کسی کی شکل و صورت اور نام کا تعلق اس کے مذہب سے نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کو ان کے چہرے کی بناء پر کسی مذہب سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔

تاہم امریکا کی ریاست جارجیا کے دارالحکومت اٹلانٹا میں 2 افراد کو مذہبی ڈانس پارٹی میں جانے سے محض اس لیے روک دیا گیا، کیوں کہ وہ چہرے سے ہندو نظر نہیں آ رہے تھے۔

جی ہاں، اٹلانٹا میں رہنے والے ایک بھارتی سائنسدان نے ٹوئٹر پر دعویٰ کیا ہے کہ انہیں حالیہ نو راتری کے درمیان ‘گربا ڈانس کے پروگرام’ میں جانے سے محض اس لیے روک دیا گیا، کیوں کہ وہ شکل و صورت سے ہندو نظر نہیں آ رہے تھے۔

انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بھارتی شہری اور گجراتی سائنسدان ڈاکٹر کرن جانی نے سلسلہ وار ٹوئیٹ میں دعویٰ کیا کہ انہیں اٹلانٹا میں نوراتری کے موقع پر ہونے والے ‘گربا ڈانس’ کے پروگرام میں شرکت کرنے سے روک دیا گیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ پروگرام میں شرکت کے لیے پہنچے تو انہیں منتظمین نے باہر روک دیا اور بتایا کہ وہ شکل سے ہندو نظر نہیں آتے، اس لیے انہیں اندر ڈانس پارٹٰی میں جانے نہیں دیا جائے گا۔

ڈاکٹر کرن جانی نے ایک اور ٹوئیٹ میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے منتظمین کو اپنے شناختی کارڈ بھی دکھائے، جن پر ان کے نام آویزاں تھے، علاوہ ازیں انہیں اور ان کے دوست کو بتایا گیا کہ ان کے آخری نام سے بھی یہ واضح نہیں ہو رہا کہ وہ ہندو ہیں۔

انہوں نے ایک ٹوئیٹ میں بتایا کہ ان کا گجراتی دوست پہلی بار نو راتری کے گربا ڈانس پروگرام میں شرکت کے لیے آیا تھا، تاہم ان کے نام اور شکل پر بھی اعتراض کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کا آخری نام ‘مردیشور‘ جب کہ ان کے دوست کا آخری نام ‘ڈنگری والا’ تھا، جس پر مذہبی پروگرام کے منتظمین اور سیکیورٹی عملے نے انہیں بتایا کہ ان کے آخری ناموں سے بھی یہ واضح نہیں ہو رہا کہ وہ ہندو ہیں۔

بھارتی شخص نے ٹوئیٹ میں دعویٰ کیا کہ انہوں منتظمین سے گجراتی زبان میں بھی بات کی، تاہم منتظمین کو ان پر اعتبار نہیں آیا اور انہیں ‘گربا ڈانس’ پروگرام میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔

ڈاکٹر کرن جانی نے ٹوئیٹس میں بتایا کہ منتظمین نے انہیں ‘اسماعیلی’ اور ‘سندھی’ بھی قرار دیا، تاہم وہ یہ ماننے کو تیار نہیں ہوئے کہ ہم ہندو ہیں۔

انہوں نے ایک اور ٹوئیٹ میں بتایا کہ وہ اسی جگہ گزشتہ 6 سال سے ‘گربا ڈانس’ کے ایونٹ میں شرکت کے لیے آتے رہے ہیں، تاہم ان کے ساتھ آج تک ایسا نہیں ہوا۔

انہوں نے منتظمین کے رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ‘گربا ڈانس’ ایونٹ میں شرکت کی اجازت نہ دیے جانے پر ان کی آںکھوں میں آنسوں آگئے، کیوں کہ ان کے شناختی کارڈ پر درج ہے کہ وہ بھارتی ہیں، لیکن پھر بھی ان کے ساتھ مذہب،رنگ، نسل اور چہرے کے خدوخال پر تفریق کی گئی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق ڈاکٹر کرن جانی کی جانب سے ٹوئیٹس کیے جانے کے بعد کئی افراد نے ان کے ساتھ ہونے والے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور بھارتی وزیر خارجہ سوشما سوراج سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

خیال رہے کہ ہندؤوں کے مذہبی تہوار ‘نو راتری’ کی تقریبات 2 ہفتوں تک بھی جاری رہتی ہیں، رواں برس اس کا آغاز 9 اکتوبر سے ہوچکا ہے جو 18 اکتوبر تک جاری رہے گا۔

ڈاکٹر کرن جانی بھی نو راتری کے سلسلے میں رکھی گئی ‘گربا ڈانس‘ کی تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے۔

‘گربا ڈانس’ روایتی مذہبی طریقہ کا ڈانس ہے، تاہم اب اس میں جدیدیت آ چکی ہے اور اسے اب نو راتری کے ایونٹس کے دوران جدید فلمی گیتوں اور انداز پر بھی کیا جاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں