اسرائیل مخالف مہم کا حصہ رہنے والی طالبہ کو ملک میں داخلے کی اجازت مل گئی

19 اکتوبر 2018
لارا القسیم اسرائیلی عدالت میں پیش ہیں — فوٹو: اے پی
لارا القسیم اسرائیلی عدالت میں پیش ہیں — فوٹو: اے پی

اسرائیل کی سپریم کورٹ نے 'صیہونی ریاست بائیکاٹ مہم میں فلسطین کی حمایت کا حصہ بننے والی امریکی طالبہ پر ملک میں داخلے کی پابندی کو ختم کردیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے 3 ججز پر مشتمل بینچ کا کہنا تھا کہ ’طالبہ کو داخلے کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کی وجوہات درست نہیں، اس لیے اسے ختم کیا جاتا ہے‘۔

واضح رہے کہ اسرائیل مخالف مہم کی حمایت کرنے پر 2 اکتوبر کو لارا القاسم کو بین گوریون ایئرپورٹ پر روک کر حراست میں لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسرائیل: ’دیوار گریہ‘ کے سامنے برہنہ ماڈلنگ پر تنازع

فلسطیی نژاد لارا القاسم امریکا سے یروشلم پہنچی تھیں تاکہ ہیبریو یونیورسٹی سے اپنا ماسٹرز شروع کر سکیں لیکن انہیں ایئرپورٹ پر ہی روک کر حراست میں لے لیا گیا تھا اور قانونی ویزا ہونے کے باوجود وہ گزشتہ 2 ہفتوں سے ایئرپورٹ پر سیکیورٹی فورسز کی تحویل میں تھیں۔

22 سالہ امریکی طالبہ کو ملک میں داخلے سے روکتے ہوئے فوری طور پر اسرائیل چھوڑنے کی ہدایت کی گئی تھی، تاہم انہوں نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اسرائیلی حکام کے مطابق ہم نے لارا کو زبردستی حراست میں نہیں رکھا اور وہ اپنے ملک واپس جا سکتی ہیں جبکہ اگر وہ معافی مانگیں اور بائیکاٹ مہم سے علیحدگی کا اعلان کریں تو ہم اپنے فیصلے پر غور بھی کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل مخالف مہم پر گرفتار امریکی طالبہ تل ابیب کی عدالت میں پیش

ان کی اپیل کو اسرائیل کی 2 ذیلی عدالتوں نے مسترد کیا تھا۔

خیال رہے کہ بائیکاٹ، ڈائیویسٹمنٹ اور سینکشنز مہم کا آغاز 2005 میں فلسطین کے سول سوسائٹی گروپ کی جانب سے کیا گیا تھا جس میں دنیا بھر کے عوام سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ فلسطین پر اسرائیلی تشدد کے خلاف اس کا ثقافتی، معاشی، سماجی اور تعلیمی بائیکاٹ کریں۔

اطلاعات کے مطابق لارا القسیم امریکا کے یونیورسٹی آف فلوریڈا میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہاں اسٹوڈنٹس فور جسٹس ان فلسطین تنظیم کی صدر بھی رہ چکی ہیں۔

اس تنظیم نے اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی حمایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: اسرائیل مخالف مہم چلانے والی یہودی کارکن کی یروشلم داخلے پر پابندی

لارا القسیم کا کہنا تھا کہ انہوں نے تنظیم کو 2017 میں چھوڑ دیا تھا اور اب وہ بی ڈی ایس موومنٹ کا حصہ نہیں ہیں۔

عدالت میں ان کے وکیل یوتم بن ہلال نے سوال کیا کہ ’لارا القسیم بائیکاٹ کے باوجود اسرائیل میں کیوں داخل ہونا چاہیں گی؟‘

اس حوالے سے اسرائیل کی ہبریو یونیورسٹی نے عدالت کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں لارا القسیم اپنی تعلیم جاری رکھیں۔

یونیورسٹی کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ’غیر ملکی طالب علم مقامی یونیورسٹی کے لیے انتہائی اہم ہیں اور ان کی موجودگی بائیکاٹ کی اقدامات پر اثر انداز ہو گی‘۔

تبصرے (0) بند ہیں