جرمن چانسلر اینجیلا مرکل نے کہا ہے کہ جب تک صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے وضاحت نہیں ہوتی سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت نہیں ہوگی جبکہ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے بیان کو جذباتی قرار دے دیا۔

پراگ میں جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم ایندریج بے بیس کے ہمراہ پریس کانفرس کے دوران اینجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ ‘ میں نے گزشتہ روز سعودی فرمان روا سے ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں کہا ہے کہ جمال خاشقجی کا کیس ناقابل یقین ہے’۔

اینجیلا مرکل نے رواں ہفتے کے آغاز میں دیے گئے اپنے بیان کو دہراتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیں اس خوف ناک جرم کے پس پردہ حقائق کی وضاحت کی ضرورت ہے اور جب تک ہم سعودی عرب کو اسلحہ برآمد نہیں کریں گے’۔

یہ بھی پڑھیں: خاشقجی کا قتل سنگین غلطی تھی، سعودی وزیر خارجہ

دوسری جانب فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے سلواکیا کے دارالحکومت بریٹیسلوا میں صحافیوں سے گفتگو میں اس کے برعکس بیان دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی روکنا ‘خالصتاً جذباتی’ عمل ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلحے کی فروخت سے ‘جمال خاشقجی کا کوئی لینا دینا نہیں تھا اس لیے تمام چیزوں کو ملانا نہیں چاہیے’۔

اینجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ ‘سعودی عرب کو یمن میں انسانی صورت حال کے فوری حل کے لیے اقدامات کرنے چاہیئں جہاں اس وقت لاکھوں افراد بھوک کا شکار ہیں اور ہمیں ایک بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے’۔

یاد رہے کہ جرمنی نے گزشتہ ماہ ہی سعودی عرب کو 2018 میں 41 کروڑ 60 لاکھ یورو کا اسلحہ فروخت کرنے کی منظوری دی تھی جبکہ ماضی میں جرمنی کی سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت میں صرف پیٹرولنگ کشتیاں شامل ہوتی تھیں۔

جرمنی کی جانب سے سعودی عرب پر لبنان کے امور میں مداخلت پر تنقید کے بعد ہونے والے کشیدہ تعلقات کے نتیجے میں 10 ماہ بعد ستمبر میں ان کے سفیر واپس آئے تھے۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، اقوامِ متحدہ

جمال خاشقجی کے کیس نے یورپی اتحادیوں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ سنجیدہ اختلافات کو جنم دیا ہے جنہوں نے مشترکہ طور پر سعودی عرب سے استنبول میں اس کے قونصل خانے کے اندر خاشقجی کی موت کے حوالے وضاحت کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حوالے سے ‘حاصل ہونے والے حقائق مستند ہونے چاہیئں’۔

خیال رہے کہ سعودی عرب نے شروع میں تردید کے بعد گزشتہ ہفتے اعتراف کیا تھا کہ واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار اور طاقت ور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سخت ناقد جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو ترکی میں قائم قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد مارے گئے۔

دوسری جانب سے ان کے قتل کے حوالے سے ‘جھگڑے’ کے طور پر دی گئی وضاحت کے مستند ہونے پر تنقید کا سامنا ہے اور عالمی طاقتوں نے ان کی لاش کے حوالے سے معلومات کا بھی مطالبہ کیاہے۔


یہ خبر27 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں