ایک نجی زچگی ہسپتال کی پارکنگ میں اپنی گاڑی پارک کرنا چاہی تو پارکنگ والے نے شیشہ کھڑکا کر تنبیہہ کی کہ اگر گاڑی پارک کرنی ہے تو چابی دینی پڑے گی۔

دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ ہسپتال میں رش ہونے کی وجہ سے آپ کی گاڑی پہلے سے پارک شدہ گاڑی کے پیچھے پارک کی جائے گی۔

متبادل پارکنگ ڈھونڈنے کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے میں نے نا چاہتے ہوئے بھی پہلے سے پارک شدہ گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی پارک کی اور چابی پارکنگ والے کے حوالے کردی۔

بالکل برابر میں گاڑی کھڑی ہونے کی وجہ سے اپنی گاڑی کا دروازہ بمشکل کھولا اور ہسپتال کے استقبالیے سے لیبر روم کا پوچھ کر منزل مقصود پر پہنچا۔ یہاں رش دیکھ کر تو ایسا لگا کہ ہسپتال کے باہر کھڑی گاڑیوں والے سارے یہاں ہی آئے ہوئے ہیں۔ لیبر روم اور آپریشن تھیٹر کے باہر لوگوں کا شدید رش تھا اور یہ سارے ہی آبادی میں ہونے والے اضافے کی خوش خبری سننے کے لیے بے چین ہیں۔

خوش خبری سننے کی امید میں دیگر لواحقین کے ساتھ میں بھی پہلے سے موجود اپنے لواحقین کے ساتھ لائن میں لگ گیا اور اپنے کان اور آنکھیں آپریشن تھیٹر کی طرف ٹکا لیں جس کا دروازہ ہر چند منٹ بعد کھلتا اور ماسک پہنی ایک خاتون میڈیکل اسٹافر آواز لگاتیں کہ فلاں کے ساتھ کون ہے؟ جس کے جواب میں وہاں موجود لواحقین فوراً چوکنے ہوجاتے اور ان میں سے ایک خاتون لپک کر لیبر روم یا آپریشن تھیٹر میں چلی جاتیں۔

چند منٹ گزرنے کے بعد جانے والی خاتون کِھلی باچھوں کے ساتھ باہر آتیں اور انتظار گاہ میں کھڑے دیگر لواحقین کو لڑکا یا لڑکی ہونے کی خوش خبری دیتیں جس کے بعد گھر والے ایک دوسرے کو مبارک دیتے۔

کچھ دیر بعد پھر سے آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور ماسک پہنی خاتون نے میری بہن کا نام پکارا جس کے فوراً بعد میری والدہ آپریشن تھیٹر میں چلی گئیں اور چند منٹوں بعد لڑکا ہونے کی خوش خبری لیے باہر آئیں۔

مبارک باد دینے اور وصول کرنے کے بعد انتظار گاہ میں بیٹھے میں نے اپنے برادرِ نسبتی سے پوچھا کہ اس نجی ہسپتال میں کتنا خرچہ آیا؟

جواب میں جو رقم میرے بہنوئی نے مجھے بتائی وہ تقریباً وہی تھی جس کا ذکر چیف جسٹس ثاقب نثار اپنی تقریروں میں کرتے ہیں کہ آج پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ 1 لاکھ 17 ہزار روپے کا مقروض ہے، یعنی کہ آج پاکستان میں 1 لاکھ 17 ہزار کا مقروض بچہ پیدا کرنے کے لیے آپ کے پاس کم از کم 1 لاکھ 17 ہزار روپے ہونے لازمی ہیں۔

6 سے 7 گھنٹوں کے انتظار کے بعد جب نومولود قرض دار ہمارے حوالے کیا گیا تو 28 ہزار ارب روپے کے مقروض پاکستان میں نانی اور دادی کے درمیان گُرتی (گھٹی) دینے کے لیے سرد جنگ شروع ہوئی جس میں امریکا کی طرح دخل اندازی کرتے ہوئے نرس نے خبردار کردیا کہ بچے کو صرف ماں کا دودھ پلایا جائے، گُرتی دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

نرس کی اس دخل اندازی سے ننھے مقروض کو گُرتی دینے کی جنگ ختم ہوئی جس کے بعد نومولود نونہال کو مسلمان کرنے کے لیے کسی مولوی کو تلاش کرنے کا مشن شروع ہوا، جس پر پھر دوبارہ سے امریکا کی طرح نرس نے رہنمائی کی اور ہسپتال کے ایک ملازم کے بارے میں بتایا کہ اس کو بلا لیں۔ وہ بچے کے کان میں اذان دے دے گا۔

نرس کا مشورہ سننے کے بعد میری ڈیوٹی لگی کہ میں جاکر آپریشن تھیٹر سے اس شخص کو اذان دینے کے لیے لے آؤں۔

خیر ڈرتے ڈرتے جب میں زنانہ آپریشن تھیٹر پہنچا تو وہ مجھے فوراً ہی مل گیا۔ میں نے اس سے اذان دینے کے لیے اپنے ساتھ چلنے کی درخواست کی، جس کے جواب میں اس نے ایک ہزار روپے کا مطالبہ کیا جو مجھے ماننا پڑا اور یوں ایک ہزار روپے میں نومولود مقروض آدھا مسلمان ہوگیا۔ آدھا اس لیے کہ ابھی ختنہ ہونا باقی تھا۔

خاندان میں لڑکا ہونے کی خبر سعودی عرب سے پاکستان کو ملنے والی امداد کی طرح پورے خاندان میں پھیل گئی اور رشتے دار جوق در جوق مبارک باد دینے کے لیے ہسپتال آنے لگے۔ کوئی نومولود قرض دار کی شکل اس کے والد سے ملاتا اور کوئی اس کی والدہ سے۔

مبارک باد دینے والے رشتے داروں میں سے کوئی کہتا کہ جلد سے جلد اس کے ختنے کروا لیں اور کوئی کہتا کہ سب سے پہلے اس کا عقیقہ کرلیں۔ جس کے بعد میری اگلی ذمہ داری یہ لگی کہ پتہ کیا جائے کہ ختنوں کے لیے ٹائم کہاں سے ملتا ہے اور کتنے پیسے لگتے ہیں؟

نومولود مقروض بھانجے کو پورا مسلمان کرنے کے لیے جب میں نے استقبالیہ سے ختنوں کا طریقہ کار اور فیس پوچھی تو مجھے اندازہ ہوا کہ اسلامی جمہوریہ میں نومولود بچے کو مسلمان کرنے کے لیے تقریباً 15 ہزار روپے لگتے ہیں جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کی طرف سے خیبر پختونخوا میں مساجد کے امام کے لیے متعین کردہ ماہانہ 10 ہزار روپے وظیفے سے 50 فیصد زیادہ ہے۔

خیر اگلے دن کا اپائنٹمنٹ لے لیا۔ ختنے کی پرچی لیے جب میں کمرے میں پہنچا تو نومولود مقروض کی ماں کی خالہ ساس نے مہنگائی کو کوستے ہوئے کہا کہ 'کی لوڑ سی اینے پیسے خرچن دی، ساڈا نائی تے 500 روپے وچ مسلمان کر دیندا اے۔' (کیا ضرورت تھی اتنے پیسے خرچ کرنے کی، ہمارا نائی تو 500 روپے میں مسلمان کردیتا ہے).

مجھ سمیت دیگر حضرات کی طرف سے اخراجات میں کمی کا مشورہ دینے والی آئی ایم ایف خالہ کو ہر پاکستانی حکومت کی طرح نظر انداز کرتے ہوئے مٹھائی کھلائی گئی اور جس کے بعد عقیقے کا اگلا فریضہ نمٹانے کی باتیں شروع ہوگئیں، جن کے شروع ہوتے ہی میں ضروری کام کا بہانا مار کر نکل گیا۔

پارکنگ میں واپس پہنچنے پر اپنی گاڑی سڑک کنارے بے یار و مددگار پائی اور پارکنگ والے نے پارکنگ فیس کے علاوہ لڑکا پیدا ہونے پر مٹھائی کے پیسے بھی مانگے، جس کے جواب میں، مَیں نے اس سے پوچھا کہ اسے کیسے پتہ چلا کہ بیٹا ہوا ہے؟

جواب میں پارکنگ والے نے بڑے غرور سے کہا کہ کیا صرف میڈیا والوں کے ذرائع ہوتے ہیں؟

پارکنگ والے کا غرور دیکھ کر میں نے اسے 50 روپے کے بجائے 100 روپے دیے اور سوچنے لگا کہ شاید اسی لیے بیٹیوں کو اللہ کی رحمت کہتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Talha Nov 07, 2018 05:17pm
Hahahhahahaha
Malik USA Nov 07, 2018 10:20pm
Very Interesting