خواتین کو جنسی ہراساں کرنے پر گوگل کے ملازمین نے کام چھوڑ دیا

01 نومبر 2018
بھارت سے لے کر برطانیہ اور جرمنی تک مطاہرے کیے گئے—فوٹو: ٹوئٹر
بھارت سے لے کر برطانیہ اور جرمنی تک مطاہرے کیے گئے—فوٹو: ٹوئٹر

گزشتہ ماہ 25 اکتوبر کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی گوگل کے کم سے کم 3 اعلیٰ افسران خواتین ملازموں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے میں ملوث پائے گئے۔

اخبار نے رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ خواتین ملازموں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ جسمانی تعلقات استوار کرنے والے اعلیٰ افسران کو کمپنی نے پتہ ہونے کے بعد محفوظ راستہ دیا اور انہیں کمپنی چھوڑتے وقت لاکھوں ڈالر کی رقم ادا کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ‘اینڈرائڈ‘ کے خالق اینڈی ربن، سینیئر نائب صدر امت سنگھال اور گوگل کی سماجی تنظیم کیپیٹیل جی کے سربراہ ڈیوڈ ڈرومنڈ خواتین ملازموں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے سمیت ان کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے میں ملوث پائے گئے۔

بعد ازاں گوگل کی جانب سے تحقیق کیے جانے کے بعد ان تین اعلیٰ افسران کو کمپنی چھوڑتے وقت لاکھوں ڈالر ادا کیے گئے۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ گوگل کے شریک بانی سرگی برن بھی ایک شادی شدہ خاتون ملازم کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرنے میں ملوث پائے گئے۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ سامنے آنے کے 2 دن بعد 27 اکتوبر کو گوگل نے کمپنی کے اعلیٰ افسران کی جانب سے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

تاہم کمپنی نے بتایا تھا کہ گزشتہ 2 سال میں کمپنی نے خواتین ملازموں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے 48 ملازمین کو ملازمت سے فارغ کیا۔

کمپنی نے بتایا تھا کہ خواتین کو ہراساں کرنے کے الزام میں ملازمت سے فارغ کیے گئے ملازمین میں اعلیٰ عہدے پر براجمان ملازمین بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: گوگل کے شریک بانی سمیت اعلیٰ افسران پر خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کا الزام

تاہم اب خبر سامنے آئی ہے کہ خواتین ملازموں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور اعلیٰ افسران کو کمپنی سے نکالتے وقت محفوظ راستہ دیے جانے کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک میں موجود گوگل کے دفاتر کے ملازمین نے مظاہرے کیے ہیں۔

سی این این نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے اعلیٰ افسران کو محفوظ راستہ دیے جانے کے خلاف ایشیا اور یورپ کے متعدد ممالک میں موجود گوگل کے ملازمین نے اپنے دفاتر کے باہر مظاہرے کیے۔

رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر متعلقہ ممالک میں موجود گوگل دفاتر کے ملازمین کی جانب سے شیئر کی گئی پوسٹس کے مطابق ایشیا میں بھارت، جاپان اور سنگاپور سمیت دیگر جگہوں پر موجود دفاتر کے باہر مظاہرے کیے گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ یورپ میں برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ سمیت دیگر ممالک میں موجود گوگل کے دفاتر کے ملازمین نے اپنی ہی کمپنی کے خلاف مظاہرے کیے۔

رپورٹ کے مطابق ملازمین نے یکم نومبر کو دفاتر میں کام سے واک آؤٹ کرتے ہوئے دفاتر کے باہر مظاہرے کیے اور کمپنی سے پالیسی میں تبدیلیاں لانے کا مطالبہ کیا۔

مظاہرے کرنے والے ملازمین نے خواتین ملازموں کے تحفظ کے لیے بہتر سے بہتر ضوابط بنانے سمیت خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے افراد کے خلاف سخت ایکشن لینے جیسے قوانین بنانے کا مطالبہ کیا۔

دوسری جانب گوگل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) سندر پچائی نے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ملازمین کے مطالبوں کی حمایت کی۔

خواتین ملازموں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور کمپنی کی پالیسیاں تبدیل کرانے کے لیے جدوجہد کرنے والے ‘گوگل واک آؤٹ فار ریئل چینچ’ کے ٹوئٹر ہینڈل سے دنیا بھر کے متعدد ممالک میں گوگل دفاتر کے باہر ہونے والے مظاہروں کی خبریں اور تصاویر بھی شیئر کی گئیں.

تبصرے (0) بند ہیں