پشاور ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے حالیہ فیصلوں میں گرفتار ملزمان کو سزائیں غلط، بدنیتی اور بغیر ثبوت کے دی گئی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس لال جان خٹک پر مشتمل بنچ نے حال ہی میں فوجی عدالتوں کی جانب سے دی گئیں سزاؤں کے خلاف 75 اپیلوں پر 173 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

پشاور ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نظر ثانی کی درخواستیں قبول کیں اور سزاؤں کو معطل کردیا اور قرار دیا کہ یہ سزائیں قانون اور حقائق کی نظر میں بدنیتی پر بنیاد رکھتی ہیں۔

عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت سمیت مدعا علیہان کو حکم دیا کہ سزاپانے والے تمام افراد کو اگر کسی دوسرے مقدمے میں مطلوب نہ ہوں تو رہا کر دیا جائے۔

مزید پڑھیں:فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ پھانسی اور عمر قید کے 74 ملزمان رہا کرنے کا حکم

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ‘سزاپانے والے تمام افراد کو جس انداز سے ان کے حقوق کے خلاف ملک کے مختلف حصوں سے گرفتار کرکے ایجنسیوں کی حراست میں رکھا گیا اور سزا دلوانے کے لیے حراستی مراکزمیں کئی سال اور مہینوں تک رکھنے کی کسی صورت حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی’۔

خیال رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے 18 اکتوبر کو تین روزہ طویل سماعت کے بعد فوجی عدالتوں کی جانب سے سزاپانے والے افراد کے کئی قریبی رشتہ داروں کی درخواستیں کو منظور کیا تھا جنہیں دہشت گردی کے مختلف الزامات پر سزائے موت سنائی گئی تھی۔

عدالت نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ بنچ نے سزا پانے والے افراد کے اعترافی بیانات کو غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مسترد کردیا ہے جبکہ گرفتار افراد کو آئین کے آرٹیکل 10-اے کے تحت غیرجانب دار ٹرائل کے حق کے حوالے سے بھی بحث کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:15 خطرناک دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تمام اعترافی بیانات کو اردو میں ریکارڈ کیا گیا جو ایک ہی ہینڈرائٹنگ اور ایک مخصوص لب و لہجے میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

عدالت نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ‘خیبر پختونخوا کے لیے تین فیلڈ جنرل کورٹ مارشل عدالتیں ہیں اور تمام دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تینوں عدالتیں ایک ہی طریقے سے کام کررہی ہیں یہاں تک کہ کسی ایک ملزم نے بھی پوچھے گئے سوالات پر مختلف انداز میں انحراف نہیں کیا’۔

بنچ کا کہنا تھا کہ تمام مقدمات میں تمام ملزمان کے لیے ایک جیسےسوالات ترتیب دیے گئے اور سب کے جوابات بھی ایک جیسے ہی تھے۔

اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ ملزمان کے اعترافی بیانات کو گرفتاری، حراستی مراکز میں لانے کی تاریخ کے بہت بعد ریکارڈ کیا گیا جبکہ انہیں رشتے داروں یہاں تک کہ والدین اور دیگر قریبی رشتہ داروں سے ملنے کی کوئی سہولت تک دستیاب نہیں تھی۔

واضح رہے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں سے اب تک دہشت گردی میں ملوث کئی مجرموں کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے، جن میں سے کئی افراد کو آرمی چیف کی جانب سے دی گئی توثیق کے بعد تختہ دار پر لٹکایا بھی جاچکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں