کراچی: سندھ پولیس کے محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) کے منتظم جج کے سامنے صحافی نصراللہ خان کے خلاف مبینہ طور پر مذہبی انتشار کو ہوا دینے کے الزام میں چارج شیٹ پیش کردی۔

سی ٹی ڈی کے مطابق انہوں نے اردو اخبار روزنامہ نئی بات سے منسلک صحافی نصر اللہ خان چوہدری کو 11 نومبر کو کراچی کے علاقے گارڈن سے حراست میں لیا جس کے بعد عدالت سے ان کا ریمانڈ حاصل کیا گیا تھا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق نصر اللہ خان کے پاس سے مبینہ طور پر افغان جہاد اور پنجابی طالبان کے حوالے سے رسائل اور کتابچے برآمد ہوئے جس میں فرقہ واریت پر مبنی مواد اور لوگوں کو جہاد میں شمولیت کی ترغیب دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: گمشدہ صحافی عدالت میں پیش، ممنوعہ لٹریچر رکھنے کا الزام

چارج شیٹ میں تفتیشی افسر نے استغاثہ کے 5 گواہان کو نامزد کیا، اس کے علاوہ تفتیشی افسر نے ’خالد مکاشی‘ نامی شخص کو ریمانڈ پیپر اور چارج شیٹ دونوں میں شامل کیا، جو مبینہ طور پر القاعدہ کا رکن ہے اور مبینہ طور پر زیر حراست صحافی کے اس کے ساتھ روابط تھے۔

تاہم تفتیشی افسر نے خالد مکاشی کو چارج شیٹ میں ملزم یا مفرور نامزد نہیں کیا۔

بعدازاں اے ٹی سی کے منتظم جج نے کیس کارروائی کے لیے اے ٹی سی-8 میں بھجوا دیا اور جیل انتظامیہ کو ہدایت کی کہ نصراللہ خان کو 23 نومبر جمعہ کے روز ٹرائل کورٹ میں پیش کیا جائے۔

مزید پڑھیں: اداریہ: صحافی کی بغیر ثبوت گرفتاری غیر منصفانہ ہے

سی ٹی ڈی نے نصراللہ خان کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ برائے سال 1997 کی دفعہ 11-ایف (1) (اگر کوئی فرد کالعدم تنظیم سے تعلق رکھتا ہو تو ملزم ٹھہرایا جائے گا)، دفعہ 11-ڈبلیو (1) (نفرت آمیز اور دہشت گردی کے حوالے سے مواد کی اشاعت) اور دفعہ 7 کے تحت ملز م ٹھہرایا ہے۔


یہ خبر 20 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں