سندھ ہائیکورٹ نے رہائشی علاقوں کی زمین کے کمرشل استعمال کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے ہدایت کی کہ تمام ادارے رہائشی علاقوں کے کمرشل استعمال کو ختم کرکے 15 روز میں رپورٹ پیش کریں۔

جسٹس عرفان سادات کی سربراہی میں سندھ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے رہائشی علاقوں میں قائم کمرشل تعمیرات ختم کرانے سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر عدالت نے کمرشل تعمیرات سے متعلق احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔

دوران سماعت عدالت میں موجود سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ تجاوزات ختم کرنا ایس بی سی اے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، جس پر جسٹس عرفان سادات نے کہا کہ تجاوزات نہیں غیر قانونی تعمیرات ہیں۔

مزید پڑھیں : کراچی میں رہائشی جگہ پر قائم اسکولوں اور کاروبار کے خلاف کارروائی کا فیصلہ

اس پر وکیل ایس بی سے اے نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پبلک لینڈ پر کارروائی نہیں کرسکتی جس پر جسٹس عرفان سادات نے ریمارکس دیے کہ پبلک لینڈ پر اگر غیر قانونی کام ہورہا ہے تو ایس بی سی اے کے ہاتھ پاوں کٹ جاتے ہیں؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ اس معاملے میں پولیس سے مدد لیں اور غیر قانونی تعمیرات ختم کرائیں، انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ پولیس سے کام نہیں بنتا تو رینجرز سے مدد لیں۔

جسٹس عرفان سادات کے ریمارکس پر ایس بی سی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کچھ علاقوں میں لائنز ایریا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو کارروائی کا اختیار دیا گیا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ لائنز ایریا ڈویلپمنٹ اتھارٹی رہائشی علاقوں کا کمرشل استعمال بند کراتی ہے اور لوگ دوبارہ کام شروع کردیتے ہیں، ہمارا کام دوکانیں بند کروانا ہے، توڑنا نہیں۔

دوران سماعت کمرہ عدالت میں موجود درخواست گزار ایڈووکیٹ سید عطااللہ شاہ نے شکایت کی کہ لوگ بااثر ہیں، کوئی بھی ادارہ ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ 2012 سے عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا لہذا فریقین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

جس پر عدالت نے مئیر کراچی وسیم اختر اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) سمیت دیگر اداروں کو مشترکہ ایکشن لینے کا حکم دیا اور رہائشی علاقوں میں کمرشل تعمیرات کو ختم کرکے 15 روز میں رپورٹ جمع کروانے کا حکم جاری کیا۔

یہ بھی پڑھیں : کراچی: تجاوزات کے خلاف آپریشن، صدر میں ٹھیلے اور پتھارے دوبارہ لگ گئے

خیال رہے کہ چند روز قبل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے رہائش کی جگہ پر قائم اسکولوں اور تجارتی سرگرمیاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا تھا۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ جو اسکول رہائشی علاقوں میں قائم ہیں وہ فوری بند کردیں کیونکہ رہائش کی جگہ پر کاروبار کرنا اور جگہ کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا جرم ہے۔

واضح رہے کہ کراچی میں سپریم کورٹ کے حکم کے بعد سے تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور اب تک ہزاروں دکانیں اور تعمیرات مسمار کی جاچکی ہیں۔

اس کارروائی کے دوران صدر میں ایمپریس مارکیٹ اور اطراف کی دکانوں کا صفایا کردیا گیا جبکہ لائٹ ہاؤس، برنس روڈ، آرام باغ اور دیگر علاقوں میں بھی تجاوزات مسمار کی گئیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Nov 30, 2018 09:46pm
صدر میں ایمپریس مارکیٹ سے شروع کیا گیا آپریشن کو جان بوجھ کر آہستہ کیا جارہا ہے۔ اطراف کی دکانوں کا صفایا کردیا گیا جبکہ لائٹ ہاؤس، برنس روڈ، آرام باغ اور دیگر علاقوں میں بھی تجاوزات مسمار کی گئیں مگر اس کے ساتھ ساتھ دکانوں کے آگے سے ملبہ نہیں ہٹایا جارہا، اسی طرح تجاوزات کے خلاف آپریشن کو آگے کھاردار سے ایک جانب سلطان آباد، دوسری جانب کیماڑی و شیریں جناح کالونی اور تیسری جانب لی مارکیٹ و بہار کالونی اور شیر شاہ کا رخ کرنا چاہیے۔ اور وہاں سے بلدیہ و اورنگی ٹائون۔ ان علاقوں میں ڈپٹی کمشنر غربی اور جنوبی کی جانب سے نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ کچھ دکاندار خود تجاوزات کا خاتمہ کررہے ہیں۔ مگر کچھ ڈھیٹ بنے ہوئے ہیں یا پھر اثرورسوخ کی بنا پر نہیں ہٹا رہے ہیں۔ بلاتفریق کارروائی کے بغیر آپریشن بے کار ہوجائے گا۔ دکانداروں کے بقول ٹھیلے والوں کو دکان کے سامنے سے ہٹانے کے لیے سامان رکھتے اور تھڑے بناتے ہیں، آپریشن کے باوجود یہ ٹھیلے والے اور پارکنگ مافیا والے سڑکوں پر قابض ہیں۔ اسی طرح رہائشی علاقوں میں کمرشل سرگرمیوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔