کراچی: سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے رہائش کی جگہ پر قائم اسکولوں اور تجارتی سرگرمیاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا۔

ایس بی سی اے کی جانب سے رہائشی علاقوں میں کاروبار کرنے والے افراد سمیت نجی اسکولوں کو نوٹس جاری کردیا۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے جاری نوٹس میں کہا گیا ہے کہ جو اسکول رہائشی علاقوں میں قائم ہیں وہ فوری بند کردیں کیونکہ رہائش کی جگہ پر کاروبار کرنا اور جگہ کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا جرم ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: تجاوزات کے خلاف آپریشن، صدر میں ٹھیلے اور پتھارے دوبارہ لگ گئے

نوٹس میں کہا گیا کہ ایسے تمام افراد کو ایک ماہ کا وقت دیا جاتا ہے، وہ رہائش کی جگہ کو صرف رہائش کے لیے استعمال کریں۔

ایس بی سی اے کے مطابق جگہ کو رہائش کے لیے لیز کرنے کے بعد اسکول یا کوئی بھی کاروبار کرنا غیر قانونی ہے، لہٰذا نوٹس پر عمل نہ کرنے والے اسکولوں کو سربمہر کردیا جائے گا جبکہ زائد المنزلہ عمارت مسمار کردی جائے گی۔

اس حوالے سے آل سندھ پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کے چیئرمین حیدر علی کا کہنا تھا کہ ایک پبلک نوٹس کے ذریعے یہ اطلاع دی گئی کہ رہائشی علاقوں میں موجود اسکولز کو منتقل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئی تجاوزات بنائی ہیں نہ کسی سرکاری بلڈنگ کو استعمال میں لیا اور نہ ہی کسی عوامی ملکیت پر قابض ہیں۔

حیدر علی کا کہنا تھا کہ یہ اقدام صرف کراچی میں ہی کیوں کیا جارہا، اگر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو ایسا کوئی اقدام لینا ہے تو سندھ حکومت سے رابطہ کرکے محکمہ تعلیم سے تمام اسکولوں کو غیر رجسٹرڈ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں چلنے والے نجی اسکولوں میں 33 لاکھ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان اسکولوں کی زیادہ تعداد رہائشی علاقوں میں ہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو چاہیے کہ وہ نجی اسکولوں کو نوٹس دینے کے بجائے حکومت سندھ کے سامنے یہ مطالبہ رکھے کہ ان اسکولوں کو غیر رجسٹرڈ کیا جائے تاکہ انہیں سربمہر کیا جاسکے۔

’نجی اسکولوں کے خلاف فوری کارروائی نہیں کررہے، صرف انتباہ جاری کیا ہے‘

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) افتخار قائم خانی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے نجی اسکولوں کے خلاف کسی بھی فوری کارروائی کا تاثر مسترد کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے صرف نجی تعلیمی اداروں کو ایک ’انتباہ‘ جاری کیا تھا تاکہ وہ اگلے تعلیمی سال تک اپنی عمارتوں کو قواعد و ضوابط کے مطابق منتقل کرسکیں۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ہماری جانب سے عوامی نوٹس مشتہر کرنے کے بعد تعلیمی اداروں اور عوام کے درمیان کچھ غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے۔

افتخار قائم خانی کا کہنا تھا کہ ’ہم اس تعلیمی سال میں کسی بھی اسکول کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اسکولوں کومسمار کرنے اور انہیں خالی کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور ہے۔

ڈی جی ایس بی سی اے کا کہنا تھا کہ ہم صورت حال کی حساسیت کو سمجھتے ہیں اور اچانک اس طرح کا بڑا فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں، ہم نجی اسکول ایسوسی ایشن اور دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں، ہم نے اپنی پوزیشن کو بھی ان کے سامنے واضح کیا ہے‘۔

خیال رہے کہ کراچی میں ایک اندازے کے مطابق رہائشی علاقوں میں تقریباً 5 ہزار اسکول موجود ہیں اور اگر ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو بڑی تعداد میں بچوں کی تعلیم متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں تجاوزات کی اجازت صرف امیروں کو ہے

واضح رہے کہ شہر قائد میں سپریم کورٹ کے حکم کے بعد سے تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور اب تک ہزاروں دکانیں اور تعمیرات مسمار کی جاچکی ہیں۔

اس کارروائی کے دوران صدر میں ایمپریس مارکیٹ اور اطراف کی دکانوں کا صفایا کردیا گیا جبکہ لائٹ ہاؤس، برنس روڈ، آرام باغ اور دیگر علاقوں میں بھی تجاوزات مسمار کیے گئے۔

یہ بھی واضح رہے کہ اس سے قبل ایس بی سی اے نے رہائشی پلاٹ پر قائم نورانی کباب ہاؤس کو بھی سربمہر کیا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Nov 26, 2018 08:07pm
رہائشی علاقوں میں ناصرف اسکول بلکہ بے شمار دیگر کاروبار بھی چل رہے ہیں۔ سندھ گورنمنٹ نے خود رہائشی عمارتوں کو آفس کے طور پر حاصل کررکھا ہے۔ اسی طرح نامی گرامی وکلا کے دفاتر بھی بنگلوں میں قائم ہیں۔ اسکول، اسپتال، دفاتر، بیوٹی پارلرز، ریستورنٹ، شورومز کیا کچھ ان رہائشی علاقوں میں نہیں ہورہا تاہم سپریم کورٹ کے اصل حکم تجاوزات کے خاتمے کے بعد قابض دوکانداروں اور پتھارے داروں کو ہٹایا جائے، غیرقانونی تعمیرات کو توڑنے کے ساتھ ساتھ اس کے ملبے کو بھی وہاں سے ہٹایا جائے تاکہ سڑکیں و گلیاں صاف ہوجائیں، ملبہ پڑا رہنے سے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ اکثر خود تجاوزات کا خاتمہ کررہے ہیں مگر چند ڈھیٹ بنے ہوئے ہیں۔ حکومتی اداروں نے جہاں بھی نوٹس دیے ہیں وہاں کارروائی ضرور کی جائے، بلاامتیاز کارروائی پر کسی کو اعتراض نہیں۔