اسلام آباد : پاکستان بارکونسل (پی بی سی) نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے دائرہ کار کے تعین کے لیے قوانین بنائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

کامران مرتضیٰ نے ڈان کو بتایا تھا کہ اٹارنی جنرل انور منصور نے بطور کونسل چیئرمین اجلاس کی صدارت کی جس میں اٹارنی جنرل، پی سی بی کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین پر مشتمل خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

مذکورہ کمیٹی آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے اختیارات کے تعین کے حوالے سے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے ملاقات کرے گی۔

اجلاس میں پاکستان بار کونسل کی جانب سے قراردار میں تجویز دی گئی تھی کہ اگر مذکورہ معاملہ عدلیہ پر مقرر کیا گیا ہے تو اس کے جائزے کے لیےسپریم کورٹ کے تمام 17 ججوں پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے۔

مزید پڑھیں : ‘ازخود نوٹس کے اختیارات کے دائرہ کار کا جائزہ لیا جائے‘

پی بی سی کے اجلاس میں وزیر قانون فروغ نسیم کے بار کونسل کے رکن کے عہدے سے استعفیٰ دیے جانے سے متعلق قراردار منظور کی گئی تھی کیونکہ پاکستان بار کونسل کے قوانین کے تحت بطورِ وزیر وہ وکالت جاری نہیں رکھ سکتے ۔

مذکورہ قرارداد منظور کیے جانے کے وقت سینئر کونسل رکن راحیل کامران شیخ نے حصہ لینے سے اجتناب کیا جبکہ ایک اور پی بی سی رکن طاہر نصیر اللہ خان ووٹنگ سے قبل ہی چلے گئے تھے۔

مقصود بٹر اور شفیق بھنڈارا نے اس اقدام کی مخالفت کی تھی جبکہ اپوزیشن کی جانب سے اجلاس میں کسی نے شرکت نہیں کی تھی۔

آرٹیکل 184(3) کے دائرہ کار لیے قوانین بنانے کا معاملہ راحیل کامران کی جانب سے پیش کیے گئے خط میں زیر غور لایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ آرٹیکل انصاف کے بجائے طاقت کے استعمال کا ذریعہ ہے جس میں بنیادی حقوق کے دائرہ کار میں مداخلت کی جاتی ہے۔

خط میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ ایک دہائی میں اس آرٹیکل کا استعمال اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ عدلیہ اور حکومت کے دیگرحصوں کی طاقت کا اہم ذریعہ ہے۔

آرٹیکل 184(3) کا استعمال ہمیشہ زیرِ بحث رہا ہے اور ستمبر میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس دائرہ کار اور حدبندی کا جائزہ لیا جانے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آرٹیکل کے دائرہ کار سے متعلق کیس کی سماعت کی تھی جو قانون کی خلاف ورزی پر عدالت کو ازخود نوٹس لینے کی اجازت دیتا ہے۔

خیال رہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی جانب سے ازخود نوٹس کے فوری استعمال کی وجہ سے اس کے دائرہ کار کے تعین کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا تھا تاکہ عدلیہ کی ساکھ متاثر نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں : ’پولیس کو شرم آنی چاہیے،گالیاں بھی کھاتی ہے اور بدمعاشوں کی طرف داری بھی کرتی ہے‘

اس حوالے سے وکلا کا کہنا تھا کہ عوامی مفادات کے تحت آرٹیکل 184(3) کا زیادہ استعمال متاثرہ شخص کے لیے مشکل کا باعث بن سکتا ہے خصوصاً اس وقت جب مکمل طور مختلف پہلوؤں کو عدالت کے نوٹس میں لایا جائے ۔

کونسل اجلاس میں پیش کیے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ ماضی میں یہ طریقہ اپنایا گیا تھا کہ ایسی طاقت کا استعمال ریاست کے دیگرمعاملات میں مداخلت اور ان کی طاقت کے اصولوں کو کمزور کرنے اور سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیاجاتا تھا۔

خط میں تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ آرٹیکل184(3) کے تحت اکثر مقدمات کی سماعت چیف جسٹس کے زیرِ صدارت بینچ یا ان کے تشیکل کردہ بینچ کے ذریعے کی جاتی تھی۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ جس کا مطلب ہے کہ چیف جسٹس کے خیالات بنیادی حقوق کی نوعیت ،دائرہ کار اور حدود کی تشریح کرتے ہیں۔

اس میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت کسی حکم کے خلاف اپیل یا فیصلہ کا کوئی اختیار نہیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 2 دسمبر 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں