سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں زیرسماعت العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کا فیصلہ 24 دسمبر کو سنانے کا حکم دیتے ہوئے خواجہ حارث کو اپنے دلائل 17 دسمبر تک مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف زیر سماعت ریفرنسز کی مدت میں توسیع کی درخواست پر سماعت ہوئی جہاں خواجہ حارث اور چیف جسٹس کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

سماعت کے آغاز پر سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ احتساب عدالت میں بحث چل رہی ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وہاں کوئی الف لیلیٰ کی کہانی چل رہی ہے، آپ نے ساری قوم اور عدلیہ کو محصور بنا کر رکھا ہوا ہے، کیوں آپ اس کیس کو لٹکانے کی کوشش کرتے ہیں، بحث کرنے کا بھی وقت ہوتا ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کے استفسار پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اگر عدالت چاہتی ہے تو میں بحث اور دلائل ختم کر دیتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہر وہ چیز جو آپ کی مرضی کے مطابق نہ ہو اس پر آپ کو اعتراض ہوتا ہے، آپ کو جب بھی دلائل جلد مکمل کرنے کا کہا جائے آپ عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے کا کہہ دیتے ہیں، غیر معینہ مدت تک مقدمات کی سماعت کو لٹکایا نہیں جا سکتا۔

خواجہ حارث نے چیف جسٹس سے پوچھا کہ کیا آپ کو احتساب عدالت سے کوئی شکایت آئی ہے، اگر ایسا ہے تو میں احتساب عدالت میں کیس چھوڑ دیتا ہوں تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ جی شکایت نہیں لیکن ایسا تاثر ضرور دیا جا رہا ہے، یہ ہے آپ کی وکالت، کیوں معاملہ لٹکا رہے ہیں، کیسے بڑے وکیل ہیں آپ، اگر آپ وقت پر کام مکمل نہیں کر سکتے تو کیس لیا ہی نا کریں۔

یہ بھی پڑھیں:نواز شریف کا وزیراعظم کے قبل از وقت انتخابات کے بیان کا خیر مقدم

چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے کبھی بڑا وکیل ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، اگر آپ کو لگتا ہے تو مقدمہ چھوڑ دیتا ہوں، میرے خیال میں یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ میں معاملے کو کھینچ رہا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیشہ عدالت پر غصہ کر جاتے ہیں، مقررہ مدت تک اپنی بحث مکمل کریں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ میں نہیں کر سکوں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہر دفعہ آپ اپنی مرضی کا وقت لے کر چلے جاتے ہیں،آپ کیس چھوڑ کر مشکلات پیدا کرنا چاہتے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ 10 ورکنگ دنوں میں بحث مکمل کرلوں گا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تمام لوگوں کی نظر ان مقدمات پر ہے، اپنی اور قوم کی زندگی آسان بنائیں، اب آپ کیس چھوڑنے کی بات کررہے ہیں یہ بھی تاخیری حربہ ہے، جواب دیتے ہوئے خواجہ حارث نے کہا کہ میرے لیے ممکن نہیں اور نہ میرے پاس آپ جیسی توانائی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ آپ کس تاریخ تک بحث مکمل کرلیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ بتائیں کب تک بحث مکمل کر لیں گے، ہمیں تاریخ دیں آپ کس دن اور کتنے بجے بحث مکمل کریں گے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں 14 دسمبر شام 4 بجے تک بحث مکمل کر لوں گا، تاہم بینچ سے فیصلہ لکھواتے وقت تاریخ میں مزید 3 دن بڑھانے کی استدعا کی اور کہا کہ 14 دسمبر کے بجائے تاریخ 17 دسمبر کردیں۔

مزید پڑھیں:احتساب عدالت: نواز شریف نے پیشیوں کی سنچری مکمل کرلی

خواجہ حارث کی جانب سے 3 دن بڑھانے کی بات پر کمرہ عدالت میں قہقہہ لگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب اب اس کے بعد میں آپ کو کیس کا بائیکاٹ نہیں کرنے دوں گا۔

جس کے بعد عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ 4 دن احتساب عدالت کو فیصلہ لکھنے کے لیے دے رہے ہیں، احتساب عدالت 24 دسمبر تک فیصلہ سنائے اور خواجہ حارث 17 دسمبر شام 4 بجے تک اپنی بحث مکمل کریں گے۔

سپریم کورٹ نے خواجہ حارث کو 17 دسمبر تک اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے احتساب عدالت کو 24 دسمبر تک سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کا فیصلہ سنانے کا حکم دے دیا۔

سماعت کے اختتام پر جسٹس اعجازالاحسن نے خواجہ حارث سے کہا کہ خواجہ صاحب آپ غصہ بہت جلدی کر جاتے ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ تاثر غلط ہے کہ میں غصہ کرتا ہوں، میں تو چاہتا ہوں تمام معاملات خوش اسلوبی سے نمٹ جائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب ہم نے آپ کی بات مان لی ہے، اب آپ بھی اس مقدمے کو جلد نمٹانے کی کوشش کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں