پاکستانی ٹویٹر صارفین کی جانب سے تنقید کے بعد 'بی بی سی' کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر کے ساتھ انٹرویو سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا حصہ حذف کیا جانا 'سینسرشپ' نہیں تھی بلکہ اسے 'ایڈٹ' کیا گیا کیونکہ ٹی وی پر نشر کرنے کے لیے پروگرام کا دورانیہ بہت زیادہ تھا۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کے معروف شو 'ہارڈ ٹاک' کے میزبان اسٹیفن سیکر کو انٹرویو کے دوران اسد عمر نے قومی اہمیت کے حامل کئی معاملات سے متعلق سوالات کے جواب دیئے۔

تاہم ٹی وی پر نشر ہونے والے ان کے انٹرویو میں کلبھوشن یادیو سے متعلق ان کی بات شامل نہیں کی گئی، جسے پاکستان میں جاسوسی کرنے اور دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہونے پر 2017 میں پاکستان کے فوجی ٹربیونل نے سزائے موت سنائی تھی۔

پروگرام کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اس کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ 'اسد عمر کے انٹرویو سے کلبھوشن یادیو کا نام حذف کرنے کے پیچھے سادہ تکنیکی وجہ ہے، ریکارڈ انٹرویو کا دورانیہ مخصوص وقت کے دوران نشر کیے جانے کے لیے بہت طویل تھا اس لیے اسے ایڈٹ کیا گیا۔'

ادارے نے کہا کہ کلبھوشن کا نام انٹرویو کے صرف ٹی وی ورژن سے نکالا گیا ریڈیو ورژن سے نہیں اور ایسا وزیر کے الفاظ کو سینسر کرنے کے لیے نہیں کیا گیا تھا۔

تاہم چونکہ تمام معاملے سے ابہام پیدا ہوا، نشریاتی ادارے کا کہنا تھا کہ وہ پروگرام کا نکالا گیا حصہ 'بحال' کردے گا اور نیا ٹی وی ورژن آج رات اور کل صبح دوبارہ نشر کیا جائے گا۔

قبل ازیں وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے وزیر خزانہ کے انٹویو کو مبینہ طور پر سینسر کرنے اور کلبھوشن یادیو کے حصے کو نکالنے پر 'بی بی سی' کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'بی بی سی کی جانب سے انٹرویو سینسر کرنے اور بھارتی جاسوس کا حصہ نکالنے کا عمل شرمناک ہے اور یہ نشریاتی ادارے کا روایتی امتیاز ہے۔'

ان کے ٹویٹ کے بعد صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے پروگرام کے میزبان اسٹیفن سیکر سے ٹویٹر پر سوال کرنا شروع کردیا کہ انٹرویو کو کیا واقعی سینسر کیا گیا۔

کالم نگار مشرف زیدی نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا واقعی بھارتی حکومت، بی بی سی کی جانب سے کلبھوشن کا نام نکالنے کے فیصلے پر اثر انداز ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں