Dawnnews Television Logo

سال 2018، ملکی و عالمی سیاسی منظرنامے کی کچھ تلخیاں، چند تنازعات

ہر سال کی طرح 2018 میں بھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئی معاملات نے تنازعات کا روپ دھار لیا۔
اپ ڈیٹ 31 دسمبر 2018 06:19pm

ہر سال کی طرح 2018 میں بھی ملکی اور عالمی سیاسی منظرنامے میں کئی معاملات اور مسائل سامنے آئے جن سے تلخیاں پیدا ہوئیں اور ان میں سے بعض نے تنازعات کی شکل بھی اختیار کرلی۔

ملکی سطح پر جہاں سیاسی رہنماؤں کے اختیارات سے مبینہ تجاوز کرنے پر سوالات اٹھتے رہے تو وہیں عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر سیاسی جماعتوں کے احتجاج اور اقدامات نے سیاسی پارہ ہائی کیے رکھا جبکہ عالمی سطح پر صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب اور ترکی کے درمیان کشیدگی، امریکا اور چین کی تجارتی جنگ، واشنگٹن کے شمالی کوریا سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ نے بھی عالمی سیاسی افق کو گرمائے رکھا۔

پاکستان میں اور اس سے باہر چند روز کے مہمان رہ جانے والے سال میں کیا کچھ ہوا اس کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔

قومی معاملات میں تلخیاں

عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا الزام

25 جولائی کو قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لیے ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) وفاق کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی جبکہ اس نے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بھی حکومت بنائی، تاہم گزشتہ انتخابات کی طرح ان انتخابات میں بھی وفاق اور صوبوں میں کم نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی اور انتخابی عمل میں اثر انداز ہونے کے الزامات لگائے گئے۔

مبینہ دھاندلی کے الزامات کے نتیجے میں 'متحدہ اپوزیشن' وجود میں آئی جس میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے علاوہ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور دیگر جماعتیں بھی شامل تھیں۔ اپوزیشن اتحاد نے پی ٹی آئی کی حکومت کو دھاندلی کی پیداوار قرار دیتے ہوئے ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کیا۔

بعد ازاں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان 'دھاندلی' کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا فیصلہ ہوا اور وفاقی وزیر پرویز خٹک کی قیادت میں کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں دونوں جانب سے قومی اسمبلی کے اراکین کے علاوہ سینیٹرز کی بھی شامل ہیں۔ تاہم ابھی انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے 'ٹی او آرز' پر اتفاق رائے ہونا باقی ہے۔

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام

سال 2018 کے آغاز میں ہی بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی جب سابق وزیر اعلیٰ نواز ثنااللہ زہری کے خلاف سابق صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی قیادت میں درجن بھر سے زائد مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والی اراکین صوبائی اسمبلی نے اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائی۔

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

تاہم ثنا اللہ زہری نے اپنے خلاف عدم عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے سے قبل ہی عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ بعد ازاں عبدالقدوس بزنجو عام انتخابات سے قبل چند ماہ کے لیے صوبے کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔

زلفی بخاری کی تقرری پر اپوزیشن سیخ پا

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

ستمبر میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے قریبی دوست ذوالفقار حسین بخاری عرف زلفی بخاری کو اپنا معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی مقرر کیا۔

اپوزیشن نے نیب کی جانب سے برٹش ورجن آئی لینڈز میں آف شور کمپنی کی تحقیقات کے باوجود زلفی بخاری کو معاون خصوصی مقرر کیے جانے پر شدید تنقید کی جس سے ملک میں نئی بحث چھڑ گئی کہ تحریک انصاف کے 'نئے پاکستان' میں ایک ایسے شخص کو اہم سرکاری عہدے سے نوازا گیا جس کی برطانوی شہریت ہے، جس کے خلاف نیب میں انکوائری چل رہی ہے اور اس کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہے۔

بعد ازاں زلفی بخاری کی تقرری سپریم کورٹ میں چیلنج کردی گئی اور درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ دوہری شہریت کا حامل شخص رکن قومی اسمبلی منتخب نہیں ہو سکتا، جبکہ معاون خصوصی نے بھی وہی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں جو منتخب رکن اسمبلی کرتا ہے، جبکہ جو کام براہ راست نہیں ہو سکتا وہ بلا واسطہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم 26 دسمبر کو عدالت عظمیٰ نے زلفی بخاری کی تقرری کے خلاف درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا سرکاری ملازمین کی دوہری شہریت کا فیصلہ زلفی بخاری پر لاگو نہیں ہوتا۔

عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے پر تنقید

— فائل فوٹو/ٹوئٹر
— فائل فوٹو/ٹوئٹر

اگست میں جب وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے عثمان بزادر کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا تو یہ خبریں سامنے آئیں کہ عثمان بزدار، ان کے والد اور دیگر ملزمان کے خلاف 1998 میں ڈیرہ غازی خان میں پولنگ کے دوران فائرنگ سے 6 افراد کے قتل کی منصوبہ بندی کا مقدمہ درج ہوا تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ نامزد وزیر اعلیٰ سمیت دیگر ملزمان کو عدالت نے مجرم ٹھہرایا تھا، لیکن عثمان بزدار اور ان کے والد نے 75 لاکھ روپے دیت ادا کرکے فریقین سے صلح کرلی تھی اور بری ہوگئے تھے۔

تاہم حکومت نے عثمان بزدار کے خلاف چند حلقوں کی طرف سے کیے جانے والے اس پروپیگنڈے کو بے بنیاد قرار دیا اور عمران خان نے ان کی نامزدگی کا دفاع کیا اور ان کا بھرپور ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ اپوزیشن کی جانب سے عثمان بزدار کی نامزدگی کی مخالفت کے باوجود عثمان احمد بزدار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز کو شکست دے کر پنجاب کے نئے وزیرِاعلیٰ منتخب ہوگئے۔

ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ اور خاور مانیکا

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

23 اگست کو خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا کو مبینہ طور پر روکنے والے ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔ بعد ازاں رپورٹس کے مطابق خاور فرید مانیکا نے غصے میں ایلیٹ فورس کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی تھی اور ڈی پی او رضوان عمر گوندل کو ڈیرے پر آکر معافی مانگنے کا کہا تھا جس پر انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس میں پولیس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ ڈی پی او رضوان عمر گوندل نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی خاور فرید مانیکا سے معافی مانگنے سے انکار کے اپنے مؤقف سے آگاہ کردیا تھا۔

27 اگست کو پنجاب پولیس کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ان کا تبادلہ کردیا گیا، جس کے بعد اوکاڑہ کے تحقیقاتی افسر شاکر احمد شاہد کو پاکپتن کے ڈی پی او کا اضافی چارج دے دیا گیا تھا۔ بعد ازاں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے معاملے کا ازخود نوٹس لیا اور نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے کوآرڈینیٹر خالق داد لک کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار معاملے میں قصوروار پائے گئے جبکہ اس وقت کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) پنجاب کلیم امام ربڑ اسٹیمپ اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہوئے۔

سپریم کورٹ میں معاملہ تقریباً دو ماہ تک زیر سماعت رہنے کے بعد اس وقت انجام کو پہنچا جب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عثمان بزدار، ان کے قریبی دوست احسن جمیل گجر اور کلیم امام کی جانب سے غیر مشروط معافی نامہ قبول کرلیا اور ساتھ ہی آئندہ ایسا واقعہ نہ ہونے کی تنبیہ کرتے ہوئے ڈی پی او تبادلہ ازخود نوٹس نمٹا دیا۔

آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ اور اعظم سواتی

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

چند ماہ قبل ہی اقتدار سنبھالنے والی تحریک انصاف کی حکومت پر ایک بار پھر اس وقت مشکل وقت آیا جب اکتوبر میں پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کا فون نہ اٹھانے پر آئی جی اسلام آباد کا مبینہ طور پر تبادلہ کیا گیا، ساتھ ہی یہ دعویٰ سامنے آیا کہ وفاقی وزیر اور آئی جی اسلام آباد کا تنازع چل رہا تھا اور اعظم خان سواتی کا ناپسندیدہ عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے آئی جی پر دباؤ تھا، جس کی وجہ سے وہ ان کا فون اٹھانے سے گریز کر رہے تھے۔

معاملے کے پس منظر میں یہ بات سامنے آئی کہ اعظم سواتی کا فارم ہاوس کے قریب رہائش پذیر ایک قبائلی خاندان سے تنازع چل رہا تھا اور وہ اسی سلسلے میں آئی جی کو فون کر رہے تھے حالانکہ ان کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے اور ان کے گارڈز کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں 2 خواتین سمیت 5 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا تھا، جنہیں ایک روز بعد رہا کیا گیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا اور معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔ جے آئی ٹی نے اعظم سواتی کو قصوروار ٹھہرایا تھا اور لکھا تھا کہ اعظم سواتی نے غلط بیانی کرتے ہوئے اختیارات کا غلط استعمال کیا جبکہ ایک وفاقی وزیر کو خصوصی پروٹوکول دیا گیا۔

اس جے آئی ٹی رپورٹ پر عدالت نے اعظم سواتی کو جواب داخل کرانے کا کہا تھا، جس پر 5 دسمبر کو اعظم سواتی نے عدالت میں جواب جمع کرایا اور عہدے کے غلط استعمال کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کی ان سے متعلق رائے درست نہیں جبکہ انہوں نے پولیس کی ہدایت پر بھی عمل کیا۔

تاہم 5 دسمبر کی ہی سماعت میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ اعظم سواتی کے خلاف آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ٹرائل ہوسکتا ہے اور سپریم کورٹ 62 ون ایف پر شہادتیں ریکارڈ کرنے کی مجاز ہے، جس کے اگلے روز اعظم سواتی نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا جو قبول کرلیا گیا۔

وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران اعظم سواتی نے کہا کہ موجودہ حالات میں اپنا کام جاری نہیں رکھ سکتا، لہٰذا اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں اور اب میں اپنے خلاف دائر کیس کو بغیر کسی عہدے یا اختیار کے لڑوں گا۔

بین الاقوامی تنازعات

امریکا اور چین کا تجارتی تنازع

مارچ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی مصنوعات کی درآمدات پر تقریباً 60 ارب ڈالر کے محصولات عائد کرنے کے حکم نامے پر دستخط کیے، چین نے انتقاماً 128 امریکی مصنوعات پر درآمد ڈیوٹی میں 25 فیصد تک اضافہ کردیا جس کے بعد دنیا کے دو بڑی معیشتوں کے درمیان بڑے تجارتی تنازع نے جنم لیا۔

بعد ازاں جون میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر پھر اربوں ڈالر کے محصولات عائد کیے جس کے بعد تنازع طول پکڑ گیا اور ایک دوسرے پر سخت بیانات داغے گئے۔ تاہم دسمبر میں چین اور امریکا کے درمیان بیونس آرئس میں جی 20 سمٹ کے دوران ’تجارتی جنگ بندی‘ کا عارضی معاہدہ طے پایا جس کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کی درآمدی مصنوعات پر 25 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ 90 دن تک معطل کردیا۔

— فائل فوٹو/اے پی
— فائل فوٹو/اے پی

جمال خاشقجی کے قتل کے بعد عالمی سطح پر کشیدگی

اکتوبر کے اوائل میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار اور سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا جس کے بعد ترکی اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی جبکہ اس معاملے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی شاہی خاندان کی حمایت کی۔

02 اکتوبر 2018 کو جمال خاشقجی سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا۔ صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی۔

دریں اثنا سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا کہ جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔

نومبر میں امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔ تاہم امریکی صدر اس الزام سے آنکھیں چراتے نظر آئے اور انہوں نے سعودی عرب سے دفاعی معاہدوں کو برقرار رکھنے کے لیے محمد بن سلمان کو کلین چٹ دے دی۔

دسمبر میں ہی امریکی سینیٹ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار دینے سے متعلق قرارداد منظور کی۔

10 ری پبلکن اراکین نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف مذکورہ قرارداد کی حمایت کی۔

قرارداد میں سعودی حکومت سے جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ داران کا احتساب کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

— فائل فوٹو/اے پی
— فائل فوٹو/اے پی

امریکا کی جوہری معاہدے کی منسوخی اور ایران پر دوبارہ پابندیاں

ٹرمپ انتظامیہ نے مئی میں اپنے اتحادی ممالک کی تجاویز اور مشوروں کو رد کرتے ہوئے ایران کے ساتھ عالمی معاہدہ منسوخ کردیا جو 2015 میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے دیگر عالمی طاقتوں بشمول برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور ایران کے درمیان طے پایا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست میں جوہری معاہدے سے دستبرداری کے 3 ماہ بعد خصوصی حکم جاری کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ معاشی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا جس نے مغربی طاقتوں کو تشویش میں مبتلا کیا اور عالمی افق پر نئے تنازع اور پریشانی نے جنم لیا۔

ایران نے امریکی معاشی پابندیوں کو عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کیا، جس نے اکتوبر میں اپنے ابتدائی فیصلے میں کہا کہ امریکا ایران کو ادویات، طبی آلات، خوراک اور زرعی مصنوعات اور جہاز کے پُرزوں کی فراہمی پر عائد پابندی کو ختم کرے۔ عالمی عدالت کا حکم سامنے آنے کے بعد واشنگٹن نے تہران کے ساتھ 1955 کے اس معاہدے کو ختم کردیا جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور سفارتی تعلقات قائم ہوئے تھے۔

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

امریکا کی جانب سے ایران پر عائد کی گئی پابندیوں کا نفاذ نومبر میں ہوا، امریکی پابندیوں کے دائرہ کار میں ایران کے توانائی، مالیاتی اور جہاز رانی کے شعبہ جات شامل ہیں۔

تاہم امریکا کے یورپی اتحادی ان پابندیوں کو زیادہ خاطر میں نہ لائے اور یورپی یونین نے کہا کہ اس کے اراکین امریکا کی پابندیوں سے بچتے ہوئے آئل کمپنیوں اور کاروباری اداروں کو ایران سے تجارت کرنے کے لیے ادائیگی کا نظام بنائیں گے۔

امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان جوہری تنازع

سال 2018 کے آغاز تک امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے معاملے پر لفظی گولہ باری اور دھمکیوں کے بادل پوری طرح چھا چکے تھے اور دونوں ممالک کے سربراہان کی جانب سے تلخ بیانات سامنے آرہے تھے۔

لیکن یہ بادل اس وقت چھٹے جب جون میں سنگاپور کے ایک شاندار ہوٹل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ ان نے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد شمالی کوریا کے 70ویں یوم آزادی کے موقع پر جوہری تنصیبات کی نمائش سے گریز کیا گیا۔

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

ستمبر میں شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن نے ملک میں بین الاقوامی ماہرین کی موجودگی میں اپنی مرکزی میزائل ٹیسٹنگ اور لانچنگ سائٹ بند کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔

تاہم دسمبر میں امریکا نے شمالی کوریا کے3 سینئر عہدیداران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پابندی عائد کردی جس پر پیانگ یانگ نے ایک بار پھر سخت لہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کے اقدامات سے جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔ دوسری جانب امریکا نے موقف اپنایا کہ شمالی کوریا کے خلاف کیے گئے اقدامات اس وقت تک رہیں گے جب تک شمالی کوریا میں ’جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کی حتمی توثیق نہیں ہوجاتی۔'

برطانیہ اور روس کے تعلقات میں کشیدگی

مارچ میں برطانیہ نے سابق روسی جاسوس سرگئی اسکریپال اور ان کی بیٹی یولیا کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی ناکام کوشش کا الزام روس پر عائد کیا جس کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھتی گئی۔ سابق جاسوس کو زہر دیئے جانے کے معاملے پر دونوں ملکوں کے ایک دوسرے کے سفارت کار نکال دیئے۔ برطانوی حکام نے الزام عائد کیا کہ ’روسی جنرل اسٹاف اور وزارت دفاع کے سینئر اراکین نے صدارتی دفتر سے احکامات پر عمل کیا‘۔

جاسوس کو زہر دینے کے معاملے پرروس کے مغرب کے ساتھ بھی تعلقات خراب ہوئے اور امریکا نے بھی روس پر پابندیاں عائد کیں۔

نومبر میں برطانوی آرمی چیف جنرل مارک کارلیٹن اسمتھ نے روس برطانوی سلامتی کے لیے 'داعش' سے کئی گنا بڑا خطرہ قرار دیا جس سے دونوں ممالک میں تنازع مزید شدت اختیار کر گیا۔

بھارت میں ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دینے پر تعریف و تنقید

— فائل فوٹو: ہندوستان ٹائمز
— فائل فوٹو: ہندوستان ٹائمز

ستمبر میں بھارت کی عدالت عظمیٰ نے ملک میں ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا اور پانچ رکنی بینچ کے جج چیف جسٹس دیپک مشرا نے فیصلہ پڑھ کر سنایا کہ ’ ایک ہی صنف کے دو بالغ لوگوں کے درمیان باہمی رضامندی سے جنسی تعلق جرم نہیں ہے‘۔ انہوں نے ریمارکس دیئے تھے کہ ’انفرادیت پسندی کے تصور سے کوئی راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا، ہمارا معاشرہ اب انفرادیت پسندی کو بہتر طور پر سنبھال سکتا ہے‘۔

عدالتی فیصلے پر جہاں بھارت کے دیگر شعبہ جات کے افراد نے خوشی کا اظہار کیا، وہیں بولی وڈ اس معاملے میں سب سے آگے نظر آئی اور متعدد فلم سازوں، اداکاروں اور پروڈیوسرز نے اسے تاریخی لمحہ قرار دیا۔

تاہم دوسری جانب بھارت کی انتہا پسند تنظیموں بالخصوص راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے فیصلے کے خلاف موقف اپنایا اور اس کے سربراہ ارن کمار نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کی طرح ہم بھی اسے ایک جرم نہیں سمجھتے، لیکن یہ فطرت کے خلاف ہے'۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جنس پرستی فطرت کے تابع نہیں، اس لیے ہم اس کی حمایت نہیں کرتے، ثقافتی طور پر بھارتی معاشرہ بھی ایسے تعلقات کو نہیں مانتا'۔

تاہم عوامی سطح پر بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف کوئی بڑا اور واضح ردعمل سامنے نہیں آیا۔


لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ S_SameerSaleem ہے۔