وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اعظم سواتی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

ڈان نیوز کے مطابق وفاقی وزیر نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی اور اپنا استعفیٰ پیش کیا، جسے قبول کرلیا گیا۔

ملاقات کے دوران اعظم سواتی نے کہا کہ موجودہ حالات میں اپنا کام جاری نہیں رکھ سکتا، لہٰذا اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔

اعظم سواتی نے کہا کہ اب میں اپنے خلاف دائر کیس کو بغیر کسی عہدے یا اختیار کے لڑوں گا۔

مزید پڑھیں: اعظم سواتی کے خلاف آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ٹرائل ہوسکتا ہے، چیف جسٹس

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں سینئر صحافیوں کو انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ میرا کوئی وزیر کوئی غلط کام کرتا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ وہ ظاہر ہو، ساتھ ہی انہوں نے یہ عندیہ دیا تھا کہ کارکردگی پر پورا نہ اترنے والے وزیروں کو تبدیل کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب ترجمان وزیرا عظم کے مطابق اعظم سواتی نے اپنے خلاف جاری کیس میں فیصلہ آنے تک وزارت رکھنے سے معذرت کی۔

یاد رہے کہ اعظم سواتی کے خلاف انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد کے تبادلے سے متعلق سپریم کورٹ میں کیس زیر سماعت ہے۔

اعظم سواتی کا معاملہ

خیال رہے کہ اکتوبر میں اسلام آباد میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے اور ان کے گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں 2 خواتین سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا، جس کے بعد یہ معاملہ سامنے آیا تھا۔

اسی حوالے سے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ اعظم سواتی کا فون نہ اٹھانے پر آئی جی اسلام آباد کا مبینہ طور پر تبادلہ کیا گیا، جس پر سپریم کورٹ نے 29 اکتوبر کو نوٹس لیتے ہوئے آئی جی کے تبادلے کا نوٹی فکیشن معطل کردیا تھا۔

معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ 'سنا ہے کہ کسی وزیر کے کہنے پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹایا گیا۔'

انہوں نے کہا تھا کہ قانون کی حکمرانی قائم رہے گی، ہم کسی سینیٹر، وزیر اور اس کے بیٹے کی وجہ سے اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

دوسری جانب اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں متاثرہ خاندان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان سے لے کر نیچے تک سب اس واقعے میں ملوث ہیں، ہم آئی جی کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا شکریہ کہ انہوں نے نوٹس لیا تھا۔

تاہم بعد ازاں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ متاثرہ خاندان اور وفاقی وزیر کے درمیان صلح ہوگئی۔

بعد ازاں 29 نومبر کو عدالتی حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جس میں اعظم سواتی کو قصوروار ٹھہرایا تھا اور لکھا تھا کہ اعظم سواتی نے غلط بیانی کرتے ہوئے اختیارات کا غلط استعمال کیا جبکہ ایک وفاقی وزیر کو خصوصی پروٹوکول دیا گیا۔

اس جے آئی ٹی رپورٹ پر عدالت نے اعظم سواتی کو جواب داخل کرانے کا کہا تھا، جس پر 5 دسمبر کو اعظم سواتی نے عدالت میں جواب جمع کرایا تھا۔

اپنے جواب میں اعظم سواتی نے کہا تھا کہ میں نے قانون کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے اس لیے میں قانون کی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی تبادلہ ازخود نوٹس: اعظم سواتی سے جے آئی ٹی رپورٹ پر جواب طلب

انہوں نے کہا تھا کہ نیاز محمد خاندان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور اپنے عہدے کاغلط استعمال نہیں کیا جبکہ اس حوالے سے جے آئی ٹی کا الزام غلط ہے اور میں نے پولیس کی ہدایت پر عمل بھی کیا۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا تھا کہ مجھے پتا چلا کہ خاتون کو گرفتار کیا گیا تو اسی وقت اپنے بیٹے سے کہا کہ اس معاملے میں راضی نامہ کیا جائے، تاہم یہ معاملہ راضی نامے پر ختم ہو چکا ہے۔

اعظم سواتی نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی کی ان سے متعلق رائے درست نہیں، جن کے مندرجات حتمی حیثیت نہیں رکھتے اور انہیں عدالت میں ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم 5 دسمبر کی ہی سماعت میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ اعظم سواتی کے خلاف آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ٹرائل ہوسکتا ہے اور سپریم کورٹ 62 ون ایف پر شہادتیں ریکارڈ کرنے کی مجاز ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

محمد اسحاق Dec 06, 2018 08:32pm
اچھا ھوا