بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دیئے جانے پر انڈیا کی شدت پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) کے سربراہ ارن کمار کا کہنا ہے کہ ’سپریم کورٹ کی طرح ہم بھی اسے ایک جرم نہیں سمجھتے، لیکن یہ فطرت کے خلاف ہے'۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ارن کمار کا کہنا تھا کہ ’ہم جنس پرستی فطرت کے تابع نہیں، اس لیے ہم اس کی حمایت نہیں کرتے، ثقافتی طور پر بھارتی معاشرہ بھی ایسے تعلقات کو نہیں مانتا'۔

واضح رہے کہ سال 2016 میں آر ایس ایس کے سینئر رہنما دتاتریا ہوسابلے کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ کسی جنس کو ترجیح دینا جرم نہیں ہوسکتا۔

مزید پڑھیں: بھارت میں ہم جنسی پرستی کو قانونی حیثیت مل گئی

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ یہ معاشرے میں دوسروں کی زندگیوں کو متاثر نہیں کررہے، جنسی ترجیحات نجی اور ذاتی ہوتی ہیں'۔

اس کے اگلے دن ہی وہ اپنی بات سے پلٹ گئے تھے اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا تھا کہ ’ہم جنس پرستی جرم نہیں لیکن ہمارے معاشرے میں ایک غیر اخلاقی عمل ہے، اس میں سزا دینے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے ایک نفسیاتی مرض کے طور دیکھنا چاہیے'۔

دوسری جانب عدالتی فیصلے کے بعد دہلی کے للت ہوٹل میں جشن کا سماں تھا، للت گروپ آف ہوٹلز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہم جنس پرستی کی مہم کے سرگرم کارکن ہیں۔

اس موقع پر ہوٹل کے اسٹاف نے قوس قزح کے رنگ کے اسکارف اپنی گردن اور کمر کے گرد باندھ کر ہوٹل میں رقص کیا، ہوٹل اسٹاف کو دیگر افراد کو بھی جشن میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی۔

کیشو سوری بھی سیکشن 377 کے خلاف عائد کی گئی اپیل کے درخواست گزار تھے، انہوں نے اے این آئی ایجنسی کو بتایا کہ ’وہ تمام وکلا اور ججز جنہوں نے اس پر کام کیا ان کا انٹرویو کرکے شکریہ ادا کیا جانا چاہیے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘میں کچھ بھی نہیں لیکن ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، آج جشن منانے کا دن ہے'۔

یہ بھی پڑھیں : بھارت: ہم جنس پرستی سے انکار پر لڑکی نے 'محبوبہ' پر تیزاب پھینک دیا

6 ستمبر 2018 کو بھارتی سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سربراہ جج چیف جسٹس دیپک مشرا نے فیصلہ پڑھ کر سنایا تھا کہ 'ایک ہی صنف کے 2 بالغ لوگوں کے درمیان باہمی رضامندی سے جنسی تعلق جرم نہیں‘۔

اس فیصلے سے قبل انڈین پینل کوڈ کے سیکشن 377 کے تحت ہم جنسی پرستی میں ملوث افراد کی سزا عمر قید تھی، یہ قانون 1861 کے برطانوی قوانین کا حصہ تھا۔

بھارتی چیف جسٹس دیپک مشرا نے ریمارکس دیے تھے کہ ’انفرادیت پسندی کے تصور سے کوئی راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا، ہمارا معاشرہ اب انفرادیت پسندی کو بہتر طور پر سنبھال سکتا ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں