’آبادی ٹاسک فورس کی سفارشات پر عمل درآمد نہ کرنا تباہی کا باعث بنے گا‘

14 جنوری 2019
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ہر 3 ماہ بعد رپورٹ پر عمل درآمد کا جائزہ لے گی—فائل فوٹو
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ہر 3 ماہ بعد رپورٹ پر عمل درآمد کا جائزہ لے گی—فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آبادی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آبادی کے لیے بنائی گئی ٹاسک فورس کی سفارشات پر حکومت نے عمل درآمد نہیں کیا تو یہ ملکی تباہی کا باعث بنے گا۔

چیف جسٹس پاکستان میان ثاقب نثار کی سربراہی میں میں تین رکنی بینچ آبادی میں اضافے کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔

سماعت میں چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت سے عدالتی حکم پر عمل درآمد کی ہونے والی پیش رفت کے بارے میں استفسار کیا۔

جس پر سیکریٹری صحت نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عدالتی حکم کی روشنی میں رپورٹ جمع کروا دی گئی ہے، ہر 5 سال بعد ڈیموگرافک سروے کیا جاتا ہے اس سلسلے کا آخری سروے 2018 میں کیا گیا، جس میں اس سے قبل ہونے والے سروے میں کوئی فرق نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’ماں ہی قربانی کیوں دیتی ہے باپ کیوں نہیں؟‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ سروے مستند ہے؟ جس پر سیکریٹری صحت نے بتایا کہ اس سروے کا تھرڈ پارٹی جائزہ لیتی ہے۔

چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ اس سروے کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں تاکہ مستند نتائج حاصل ہوں اور عدالت ہر 3 ماہ بعد رپورٹ پر عمل درآمد کا جائزہ لے گی۔

چیف جسٹس نے تنبیہہ کی کہ ٹاسک فورس کی سفارشات پر حکومت کا عمل درآمد نہ کرنا ملکی تباہی کا باعث بنے گا۔

جس پر سیکریٹری صحت نے بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات تسلیم کر گئیں ہیں جس پر عمل درآمد کرنے کے بعد2025 میں آبادی میں اضافے کی شرح 2.4 سے 1.5 فیصد ہوجائے گی۔

مزید پڑھیں: ’کیا ملک اس قابل ہے کہ ایک گھر میں 7 بچے پیدا ہوں؟‘

بعد ازاں چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ اس کے کیس کا فیصلہ کل سنایاجائے گا اور سماعت کل (منگل) تک کے لیے ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت میں عدالت نے آبادی میں اضافے کی روک تھام کے لیے سیکریٹری صحت سے چار ہفتے میں مکمل ایکشن پلان طلب کیا تھا۔

خیال رہے کہ 3 جولائی کو ملک میں بڑھتی آبادی پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریمارکس دیئے تھے کہ ہم کس چکر میں پھنس گئے ہیں کہ بچے کم پیدا کرنا اسلام کے خلاف ہے، کیا ملک اس قابل ہے کہ ایک گھر میں 7 بچے پیدا ہوں؟ کیا ملک میں اتنے وسائل موجود ہیں؟

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے تھے کہ ملک میں آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، کیا ملک اس قابل ہے کہ ایک گھر میں 7 بچے پیدا ہوں، لوگ مرغیوں کے دڑبے میں بھی اضافی جگہ بناتے ہیں جبکہ ملک میں آبادی کی شرح میں اضافہ بم کی مانند ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہماری اگلی مہم آبادی پر قابو پانا ہے، چیف جسٹس

خیال رہے کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن پاکستان کی جانب سے بڑھتی آبادی پر ایک روزہ کانفرنس کا انعقاد 5 دسمبر کو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ہوا تھا۔

سپموزیم سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی ترجیحات میں بڑھتی ہوئی آبادی سے متعلق مسئلہ بہت پیچھے تھا، تاہم چیف جسٹس کا اسے مسئلے کو اجاگر کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہیں جبکہ حکومت نے اس معاملے میں ٹاسک فورس بھی تشکیل دے دی ہیں۔

وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی قومی نوعیت کا مسئلہ ہے جس میں سیاسی قیادت، سول سوسائٹی اور علما کو مرکزی کردار ادا کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لیے ٹاسک فورس تشکیل

سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا تھا کہ پاکستان میں دستیاب وسائل بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ 60 برس کے دوران آبادی کو محدود کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔

یاد رہے کہ 25 نومبر کو چیف جسٹس نے برطانوی شہر برمنگھم میں ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں فنڈز جمع کرنے کی تقریب کے بعد نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کی آئندہ مہم پاکستان میں آبادی کے کنٹرول کی مناسبت سے ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آبادی کو کنٹرول کرنے سے متعلق آگاہی مہم چلانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں