اسلام آباد: ملک میں بڑھتی آبادی پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم کس چکر میں پھنس گئے ہیں کہ بچے کم پیدا کرنا اسلام کے خلاف ہے، کیا ملک اس قابل ہے کہ ایک گھر میں 7 بچے پیدا ہوں؟ کیا ملک میں اتنے وسائل موجود ہیں؟

مزید پڑھیں: ’ملک کی 29 فیصد سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے‘

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔



ہم کسی کو بچے پیدا کرنے سے
نہیں روک سکتے

نمائندہ ڈیولپمنٹ سیکٹر پنجاب

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، کیا ملک اس قابل ہے کہ ایک گھر میں 7 بچے پیدا ہوں، لوگ مرغیوں کے دڑبے میں بھی اضافی جگہ بناتے ہیں جبکہ ملک میں آبادی کی شرح میں اضافہ بم کی مانند ہے۔

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اولاد میں مناسب وقفے کے حوالے سے قرآن میں بھی آیات موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومت نے اب تک کیا پالیسی بنائی ہے اور اس معاملے پر کتنا پیسہ استعمال کیا، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ آبادی کنٹرول میں بیٹھے لوگ صرف مفت کی تنخواہیں لے رہے ہیں۔

از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سیکریٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ آبادی کی شرح میں کمی سے متعلق صحت کے مراکز کی مانیٹرنگ کا کوئی بندوبست نہیں جبکہ انڈونیشیا میں مسجدوں میں جاکر آبادی سے متعلق آگاہی مہم چلائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: 'ملک کی 84 فیصد آبادی پینے کےصاف پانی سے محروم'

ان کے علاوہ نمائندہ ڈیولپمنٹ سیکٹر پنجاب نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ 70 اور 80 کی دہائی میں شرح آبادی 3.7 فیصد تھی، جو اب 2.4 فیصد ہے، ہم کسی کو بچے پیدا کرنے سے روک نہیں سکتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پنجاب میں 2100 فلاحی مراکز کی کارکردگی زیرو ہے، تمام منصوبے کاغذوں کی حد تک ہیں، انہوں نے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت بتائے فلاحی مراکز چلانے کے لیے کتنا بجٹ رکھا گیا تھا۔



ملک میں آبادی کی شرح میں اضافہ
بم کی مانند ہے

چیف جسٹس

اس حوالے سے ڈپٹی سیکریٹری پنجاب نے جواب دیا کہ 1.459 ملین روپے سالانہ جبکہ 3.6 بلین روپے پی ایس ڈی پی سے آتے ہیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے پانی، خوراک جیسے وسائل نہیں ہیں، ہم نے پورے ملک کے لیے یکساں پالیسی بنانی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ شرح آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

بعد ازاں خیبرپختونخوا کے سیکریٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان نے ابھی تک آبادی پالیسی تشکیل ہی نہیں دی۔

جس پر چیف جسٹس نے متعلقہ محکموں کو مل بیٹھ کر خاکہ تیار کر کے عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی۔

کچھ دیر وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سندھ میں 6، 6 انچ کے فاصلے پر بچے پیدا ہورہے ہیں، جس پر سندھ کے نگراں وزیر صحت نے کہا کہ 6، 6 انچ کے فاصلے پر بچے پیدا ہونے سے ایچ آئی وی طرز کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے کہا جارہا ہے کہ ’پاگل ہوگیا ہوں ہسپتالوں کے دورے کررہا ہوں‘، فواد حسن فواد آپ نائب وزیراعظم رہے ہیں آبادی میں اضافے کے معاملے کو کس نے دیکھا۔

اس پر فواد حسن فواد نے کہا کہ آبادی میں اضافے کے معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے فیصلہ سازی کے لیے رکھنا چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک امراض قلب کا ہسپتال بن رہا تھا اسے روک دیا گیا کیونکہ کوئی اور بنا رہا تھا جبکہ سپریم کورٹ نے مداخلت کرکے اس منصوبے کو شروع کروایا۔

عدالت عظمیٰ نے ہدایت دی کہ آبادی کے کنٹرول کے لیے مربوط پالیسی بنانے کے لیے 2 الگ الگ کمیٹیاں بنائی جائیں، ایک کمیٹی سابق پرنسپل سیکریٹری وزیراعظم فواد حسن فواد کی سربراہی میں کام کرے گی اور چیف جسٹس کی جانب سے کمیٹی کو 15 روز کے اندر رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔

عدالت نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل ایک ٹاسک فورس بنائیں گے اور ٹاسک فورس بھی 3 ہفتوں میں اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں