بہتر ہوگا پاکستان اور بھارت مل کر چلیں، ڈونلڈ ٹرمپ

20 فروری 2019
ڈونلڈ ٹرمپ نے اوول آفس میں دستخط کی تقریب کے دوران گفتگو کرتے ہوئے حملے کو ہولناک قرار دیا— فوٹو: اے ایف پی
ڈونلڈ ٹرمپ نے اوول آفس میں دستخط کی تقریب کے دوران گفتگو کرتے ہوئے حملے کو ہولناک قرار دیا— فوٹو: اے ایف پی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج پر حملے کی مذمت کیے بغیر کہا ہے کہ بہتر ہو گا کہ پاکستان اور بھارت مل کر چلیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جب میڈیا بریفنگ کے دوران پلوامہ میں حملے کے دوران 40 سے زائد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اس بارے میں دیکھا ہے، ہمیں اس پر کافی رپورٹس بھی ملی ہیں، ہم مناسب وقت پر اس پر بیان دیں گے، اگر پاکستان اور بھارت مل کر چلیں تو یہ بہتر ہوگا۔

مزید پڑھیں: پلوامہ حملہ: بھارت معلومات دے پاکستان تعاون کرنے کو تیار ہے، عمران خان

اوول آفس میں دستخط کی تقریب کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے اس حملے کو ہولناک قرار دیا۔

اس سے قبل امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے نائب ترجمان روبرٹ پلاڈینو نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ اس واقعے کے حوالے سے امریکی حکومت دونوں ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم بھارتی حکومت سے قریبی رابطے میں ہیں تاکہ نہ صرف اس واقعے پر اپنی ہمدردی کا اظہار کر سکیں بلکہ دہشت گردی کا سامنا کرنے والے بھارت کی مکمل سپورٹ بھی کرسکیں، ہمارے بھارت سے قریبی اور تعاون پر مبنی تعلقات ہیں جس میں انسداد دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی تعلقات بھی شامل ہیں۔

روبرٹ پلاٹینو نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ہم ان سے بھی اس مسئلے پر رابطے میں ہیں، ہم پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ وہ حملے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کرے اور ذمے داران کو سزا دے۔

یہ بھی پڑھیں: پلوامہ حملہ: بھارت نے وزیراعظم عمران خان کی پیشکش مسترد کردی

یاد رہے کہ اس حملے کے فوراً بعد امریکا نے پاکستان کی خصوصی طور پر نشاندہی کرتے ہوئے حملے کی مذمت کی تھی۔

وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکا پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے کام کرنے والے تمام دہشت گروہوں کو فراہم کیے گئے محفوظ ٹھکانے اور سپورٹ فوراً ختم کرے جن کا واحد مقصد افرا تفری، دہشت اور تشدد پھیلانا ہے۔

اس خود کش حملے میں 40 سے زائد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر الزام عائد کیا تھا جسے پاکستان نے یکسر مسترد کردیا تھا۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اس کے بعد سے کشیدگی آئی ہے اور بھارت نے پاکستان کو دنیا بھر میں ہر سطح پر تنہا کرنے کی مذموم کوششوں کو مزید تیز تر کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان پر الزام تراشی بھارتی وتیرہ ہے، دفتر خارجہ

منگل کو وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو حملے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بھارت قابل ذکر شواہد فراہم کرتا ہے تو ہم مجرموں کے خلاف ایکشن لیں گے۔

تاہم انہوں نے بھارت کو کسی بھی قسم کی جارحیت سے باز رہنے کا انتباہ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر بھارت نے حملہ کیا تو پاکستان حملہ کرنے کا سوچے گا نہیں، بلکہ جواباً حملہ کرے گا۔

بھارت نے وزیر اعظم عمران خان کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'عمران خان کا یہ کہنا کہ پاکستان خود دہشت گردی سے سب زیادہ متاثر ہے، حقیقت کے برعکس ہے۔'

بیان میں کہا گیا کہ 'ہمیں اس بات پر حیرانی نہیں ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے پلوامہ میں ہماری سیکیورٹی فورسز پر حملے کو دہشت گردی کا واقعہ تسلیم نہیں کیا، انہوں نے اس ظالمانہ واقعے کی مذمت کی اور نہ ہی متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔'

یہ بھی پڑھیں: ہربھجن سنگھ کا ورلڈ کپ میں پاکستان کے ساتھ میچ کے بائیکاٹ کا مطالبہ

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پلوامہ میں حملے کے فوراً بعد پاکستان نے اس کی مذمت کرتے ہوئے گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق پاکستان میں کالعدم قرار دی گئی دہشت گرد تنظیم جیش محمد نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔

یہ بات قابل فہم ہے کہ جیش محمد نے، جس پر پاکستان میں پابندی ہے اور اس کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے، واقعے کی ذمہ داری قبول کی لیکن یہ واضح نہیں کہ بھارتی وزارت خارجہ، جیش محمد کے حملے میں ملوث ہونے کے دعوے کے بیان کو پاکستان سے کس بنیاد پر جوڑ رہی ہے۔

پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان کی جانب سے کئی بار یہ کہا گیا کہ وہ جیش محمد کے خلاف کارروائی کر رہا ہے، کیونکہ وہ اسے دہشت گرد گروپ مانتا ہے۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بمبار، مقبوضہ کشمیر کا رہائشی تھا جبکہ اس کے والدین کا کہنا تھا کہ وہ شدت پسندی کی طرف، بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے حقوق کی پامالیوں اور تشدد کی وجہ سے مائل ہوا۔

بھارتی وزارت خارجہ کے بیان میں اس کی بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ بمبار کا پاکستان سے کس طرح تعلق تھا۔

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے تعاون کے لیے 'ٹھوس ثبوت' فراہم کرنے کی درخواست پر عمل کے بجائے بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں بار بار یہ الزام لگایا کہ 'جیش محمد اور اس کے سربراہ مسعود اظہر پاکستان میں موجود ہیں اور پاکستان کو ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے یہ ثبوت کافی ہیں۔'

بھارت وزارت خارجہ نے الزام لگایا کہ 'پاکستان کے وزیر اعظم نے ثبوت فراہم کیے جانے پر معاملے کی تحقیقات کی پیشکش کی جو صرف ایک بہانہ ہے، ممبئی حملے اور پٹھان کوٹ کے حملے کے بھی ثبوت پاکستان کو دیئے جاچکے ہیں لیکن ان میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

بیان میں اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا کہ بھارتی حکام نے خود پٹھان کوٹ واقعے کی تحقیقات کو روکا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں