امریکا جنگی جرائم کا مرتکب ہوسکتا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

اپ ڈیٹ 21 مارچ 2019
امریکی فورسز کی فضائی کارروائی میں عام شہری بھی مارے گئے ، ایمنسٹی انٹرنیشنل — فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکی فورسز کی فضائی کارروائی میں عام شہری بھی مارے گئے ، ایمنسٹی انٹرنیشنل — فائل فوٹو: اے ایف پی

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ صومالیہ میں فضائی کارروائی میں بڑی تعداد میں عام لوگوں کی ہلاکت پر امریکا کو جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا تھا کہ اس نے صومالیہ میں امریکا کی صرف 5 فضائی حملوں کی تحقیقات کی ہے جس میں یہ سامنے آیا ہے کہ اس میں مارے جانے والے افراد میں 14 عام شہری بھی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ امریکا نے صومالیہ میں جون 2017 کے بعد سے لے کر اب تک ایک سو 10 مرتبہ فضائی کارروائی کی ہے۔

ادھر امریکا نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری ہونے والی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ان فضائی کارروائیوں میں 8 سو سے زائد دہشت گردوں کو مارا ہے لیکن اس میں ایک عام شہری بھی زخمی نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: ’کوئی ٹرمپ کو سمجھائے کہ امریکا نے کس طرح مشرق وسطیٰ کو غیرمستحکم کیا‘

غیرملکی خبررساں ادارے کی جانب سے جب دریافت کیا گیا تو امریکی فوج کی افریقن کمانڈ ایفریکوم کا کہنا تھا کہ ہمیں اب تک فضائی حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سینئر کرائسز ایڈوائزر برائے اسلحلہ و فوجی کارروائی برائن کاسٹنر کا کہنا تھا کہ امریکا کی فضائی کارروائی میں مارے جانے والے عام شہریوں کی تعداد بہت قلیل ہے جس نے انسانی حقوق کے ادارے کو تحقیقات کے قابل بنایا اور اس نے یہ تجویز دی کہ صومالیہ کی جنگ میں امریکا کا کردار ایک خفیہ پردے میں چھپا ہوا ہے اور ایسا اس لیے ہے تاکہ امریکا کو بچایا جاسکے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ امریکی فورسز کے وہ افراد جنہوں نے ان حملوں کی منصوبہ بندی کی ہے وہ درحقیقت انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جنگی جرائم کے مرتکب ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان کا امریکی ہتھیاروں پر انحصار کم ہورہا ہے‘

شمال مشرقی افریقی ملک صومالیہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے جو گزشتہ 28 سال سے خانہ جنگی اور سیکیورٹی کی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔

گزشتہ چند سالوں کے دوران امریکی فورسز صومالیہ میں اقوام متحدہ کی فورسز کے ساتھ مل کر باغی گروپ الشباب سے مقابلہ کر رہی ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ 2017 میں فورسز کو صومالیہ میں باغیوں کے خلاف فضائی حملوں کی اجازت دے دی تھی۔

اپنے بیان میں ایفریکوم کا کہان تھا کہ ' ہماری کارروائی لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہے اور یہی ہماری اولین ترجیح ہے، ہمارا یہ طریقہ کار عام شہریوں اور انفرا اسٹرکچر کی حفاظت کرتا ہے۔'

مزید پڑھیں: صومالیہ: امریکی فضائی حملے میں 52 ’جنگجو‘ ہلاک

رواں ہفتے امریکی فورسز کی فضائی کارروائی میں چار افراد مارے گئے تھے جن میں ایک موبائل کمپنی کے ملازم اور تین نامعلوم مسافر شامل تھے۔

ایفریکوم نے اس کارروائی کے حوالے سے بتایا تھا کہ اس نے 3 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے لیکن انہیں ایک سویلین کے مارے جانے کی متضاد اطلاعات موصول ہورہی ہیں جن کی تصدیق کی جارہی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں 5 فضائی حملوں کی تحقیقات کی ہے جس میں 14 عام شہری مارے گئے جبکہ 8 زخمی ہوئے تھے۔

انتہا پسند گروپ الشباب کے ترجمان ابدیاس ابو مصعب کا کہنا تھا کہ امریکی فضائی کارروائی میں صومالیہ کے مختلف مقامات پر کسانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ اپنے کھیت اور مویشیوں سے محروم ہوجاتے ہیں جبکہ ان کے گھر بھی جل جاتے ہیں۔


یہ خبر 21 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں