گولان ہائٹس سے متعلق امریکی فیصلے کے خطے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، سعودی عرب

اپ ڈیٹ 27 مارچ 2019
اسرائیل کی خود مختاری تسلیم کرنا اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے — فوٹو: اے ایف پی
اسرائیل کی خود مختاری تسلیم کرنا اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے — فوٹو: اے ایف پی

سعودی عرب نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام کے مقبوضہ علاقے گولان ہائٹس پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’ا ے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق سعودی پریس ایجنسی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ سعودی عرب امریکی انتظامیہ کی جانب سے گولان ہائٹس پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کیے جانے کے اعلان کی شدید مذمت کرتا ہے اور اسے مکمل طور پر مسترد کرتا ہے‘۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ گولان ہائٹس شام کا مقبوضہ علاقہ ہے اور اس پر اسرائیل کی عملداری تسلیم کرنا اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے گولان ہائٹس پر اسرائیل کی حاکمیت کو تسلیم کرلیا

سعودی عرب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ امریکا کے فیصلے سے مشرق وسطیٰ میں امن عمل اور خطے کے استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے‘۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اور ماضی میں امریکی انتظامیہ نے ہمیشہ گولان ہائٹس کو مقبوضہ علاقہ قرار دیا تھا جس سے متعلق حتمی فیصلہ اسرائیل اور شام کے درمیان امن معاہدے پر مذاکرات کے تحت کیا جانا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ پالیسی یوٹرن کی وجہ سے اپنے اتحادیوں کو ساتھ تعلقات برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے مستقل اراکین برطانیہ اور فرانس نے کہا ہے کہ وہ چین اور روس کی طرح گولان ہائٹس کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے عین مطابق مقبوضہ علاقہ ہی تسلیم کریں گے۔

لبنان اور اردن کی جانب سے بھی امریکی صدر کے فیصلے کی شدید مذمت کی گئی، اس حوالے سے اردن کا کہنا تھا کہ گولان ہائٹس پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرنے سے زیرِقبضہ دیگر علاقوں پر اس کی خودمختاری تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہوجائےگی۔

العریبیہ کی رپورٹ کے مطابق عرب پارلیمنٹ نے گولان ہائٹس پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کرنے کے اعلان کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔

پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ گولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے سے خطے میں بدامنی اور عدم استحکام کی ایک نئی لہر سر اٹھا سکتی ہے اور اس عدم استحکام کا ذمہ دار صرف امریکا ہوگا۔

عرب پارلیمنٹ کے سربراہ مشعل بن فھم السلمی نے اس حوالے سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ امریکی صدر نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 242 اور 497 کی خلاف ورزی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عرب ممالک، امریکی صدر کے ناجائز فیصلے کو قبول نہیں کرتے۔

عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو الغیط نے امریکی صدر کے اعلان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گولان ہائٹس پر اسرائیل کی خودمختاری کو تسلیم کرنا عالمی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی برادری کے اصولی موقف کی توہین ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، گولان ہائیٹس پر اسرائیلی کنٹرول تسلیم کرتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ

انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کے اعلان سے گولان ہائٹس کی قانونی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

جنرل احمد ابو الغیط نے کہا کہ گولان ہائٹس شام کا مقبوضہ علاقہ ہے جس پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہیں

انہوں نے کہا کہ 1981 میں سلامتی کونسل نے قرارداد 497 منظور کرکے واضح کردیا تھا کہ گولان ہائٹس اسرائیل کا حصہ نہیں بنے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متنازع گولان ہائٹس کے علاقے پر اسرائیل کی حاکمیت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کی دستاویزات پر دستخط کیے تھے۔

اس سے قبل امریکی صدر نے گزشتہ ہفتے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا ’52 سال بعد وقت آگیا کہ واشنگٹن مکمل طور پر گولان ہائیٹس پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کر لے جو اسٹریٹجک اور سیکیورٹی کے تناظر میں اسرائیل اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری ہے‘۔

مزید پڑھیں: فلسطینی صدر کی انسانی حقوق کی رپورٹ سے لفظ ’مقبوضہ ‘ ہٹانے پر امریکا پر تنقید

خیال رہے کہ اسرائیل نے 1967 میں 6 روزہ جنگ کے دوران گولان ہائٹس، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کیا تھا۔

تاہم عالمی برادری کی جانب سے ان علاقوں پر اسرائیل کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔

رواں برس مارچ میں سالانہ انسانی حقوق کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے لفظ ’اسرائیلی قبضہ‘ کے بجائے ’اسرائیلی کنٹرول‘ استعمال کیا، جو امریکی پالیسی میں واضح تبدیلی کی جانب اشارہ ہے۔

بعد ازاں فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے امریکا کی جانب سے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور گولان ہائٹس کو زیر قبضہ علاقے قرار نہ دینے کے اقدام پر تنقید کی ہے۔

علاوہ ازیں گزشتہ برس جاری کی گئی رپورٹ میں معنی کے اعتبار سے متعلق ایک اور تبدیلی رواں برس کی رپورٹ میں بھی موجود تھی جس میں ایک حصے کا عنوان ’ اسرائیل، گولان ہائٹس، مغربی کنارہ اور غزہ ‘ تھا جبکہ اس سے قبل یہ عنوان ’اسرائیل اور زیرِ قبضہ علاقے‘ تھا۔

تاہم امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اصرار کیا کہ مختلف الفاظ کا مطلب پالیسی کی تبدیلی نہیں ہے۔

خیال رہے کہ 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا جس پر عالمی برادری کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں