امریکی کانگریس نے یمن جنگ کی ’حمایت‘ ختم کرنے کا بل منظور کرلیا

اپ ڈیٹ 04 اپريل 2019
بل سے ’شدید نوعیت کے آئینی تحفظات‘ جنم لے چکے ہیں، وائٹ ہاؤس — فائل فوٹو / اے پی
بل سے ’شدید نوعیت کے آئینی تحفظات‘ جنم لے چکے ہیں، وائٹ ہاؤس — فائل فوٹو / اے پی

امریکی کانگریس نے یمن جنگ کی حمایت ختم کرنے کے لیے بل کثرت رائے سے منظور کرلیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی کانگریس نے یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عسکری حمایت کو قطعی طور پر مسترد کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا یمن کی بربادی کا ذمہ دار ہے، نیو یارک ٹائمز

مذکورہ بل ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس منظوری کے لیے جائے گا تاہم ان کی جانب سے بل پر ویٹو کیے جانے کا قوی امکان ہے۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے مطابق بل سے ’شدید نوعیت کے آئینی تحفظات‘ جنم لے چکے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کانگریس نے دہائی پر مشتمل ’جنگی اختیارات کی قرارداد‘ کے خلاف قانونی طریقہ استعمال کرتے ہوئے غیر ملکی تنازعات کو روکنے اور انہیں ختم کرنے کی کوشش کی۔

خارجہ امور پر مشتمل کمیٹی کے چیئرمین ایلیوٹ اینجل نے کہا کہ ’کانگریس خارجہ پالیسی کے تناظر میں اپنے آئینی اختیارات کا بھرپور استعمال کرے گی‘۔

مزید پڑھیں: یمن بچوں کیلئے جہنم بن گیا ہے، اقوام متحدہ

خیال رہے کہ یمن میں جنگ پانچویں سال میں داخل ہو چکی اور ہزاروں لوگ جاں بحق جبکہ لاکھوں قحط سالی کا شکار ہیں جسے اقوام متحدہ نے دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران قرار دیا ہے۔

گزشتہ برس دسمبر میں نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یمن جنگ میں امریکا کا ہاتھ ہر جگہ نظر آتا ہے۔

امریکی اخبار نے انکشاف کیا تھا کہ ’امریکا انسانی بحران میں ملوث ہے جس سے شام اور عراق کے حوالے سے خطے اور دنیا میں غیر مستحکم اثرات آئیں گے‘۔

خیال رہے کہ سعودی حمایت یافتہ یمن کی حکومت اور باغیوں کے درمیان خانہ جنگی سے گزشتہ 3 سالوں میں 10 ہزار سے زائد افراد قتل ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ‘سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، یمن میں جنگی جرائم کے مرتکب‘

نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں کہا گیا تھا کہ ’سامنے آنے والے ہزاروں افراد کی ہلاکت متاثرین کی کل تعداد کا صرف ایک حصہ ہے اور امریکی حکومت حالات خراب کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے‘۔

علاوہ ازیں اگر یمن تنازع کی بات کی جائے تو عرب دنیا کے اس غریب ترین ملک میں 2014 میں اس وقت تنازع شروع ہوا جب حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا کا کنٹرول سنبھالا اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کردہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

اس کے بعد 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کے اتحاد نے حوثیوں کے خلاف لڑائی کا آغاز کیا۔

مزید پڑھیں: سعودیہ کا یمن میں آپریشن ختم کرنے کا اعلان

تاہم اس تنازع کی زد میں بڑی تعداد میں عام شہری آئے اور ہیضے کی وبا نے شدت اختیار کی، جبکہ تنازع کی زد میں اب تک 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

گزشتہ برس کے ابتدائی 6 ماہ میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروہوں نے 80 لاکھ سے زائد یمن کے شہریوں کو امداد فراہم کی تھی اور ان میں سے زیادہ تر ایسے تھے، جنہیں یہ تک نہیں معلوم تھا کہ ان کی اگلی غذا کہاں سے آئے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں