’حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا قاتلوں کے ساتھ ہے یا مقتولوں کے ‘

اپ ڈیٹ 16 اپريل 2019
ہم متاثرین کو تحفظ نہیں پہنچا سکتے،بلاول بھٹو— فوٹو: ڈان نیوز
ہم متاثرین کو تحفظ نہیں پہنچا سکتے،بلاول بھٹو— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لایا جارہا ہے لیکن جو متاثرین ہیں ان کے لیے ہم کچھ نہیں کرتے۔

کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں دھماکے کے متاثرین سے تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ریاست کو مقتولوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے یا قاتلوں کے ساتھ۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم متاثرین کو تحفظ نہیں دے سکتے، انہیں انصاف نہیں دلاسکتے، پاکستان میں یہ کس قسم کا پیغام دیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیر داخلہ کا کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کو انتخاب لڑنے سے روکنے کا عندیہ

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں کتنا خون بہانا پڑے گا، ہمارے خون کی قیمت کیا ہے، کیا ہم دہشت گردی کو کرپشن میں شامل کریں، اگر ہم کہیں کہ دہشت گردی بھی کرپشن ہے تو پھر یہ ملک اور حکومت سنجیدہ ہوگی ۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ سویلین انٹیلی جنس ادارے کے سینئرز افسران نے استعفیٰ دیا کیونکہ حکومت کی طرف سے دباؤ تھا کہ سیاسی مخالفین کو پکڑو۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ سینئر افسران جو 10 سال سے دہشت گردی کا مقابلہ کررہے تھے، انہوں نے استعفیٰ دیا کہ ہماری تربیت دہشت گردی کا مقابلہ کرنےکے لیے ہے سیاسی مخالفین کے پیچھے پڑنے کے لیے نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بھی وزیراعظم عمران خان جب بھی ٹی وی پر آتے ہیں،بین الاقوامی میڈیا سے بات کریں تو کہتے ہیں کہ ہم کالعدم اور دہشت گرد تنظیموں کو برداشت نہیں کرتے ہمارے پاس نیشنل ایکشن پلان ہے۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ میرا سوال ہے کہ کیا آج تک ہمارے وزیراعظم نے نیکٹا کمیٹی کا اجلاس بلایا ہے، نیشنل ایکشن پلان کی کسی شرط پر عمل کیا ہے؟

انہوں نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے آمروں اور دہشت گردوں کا مقابلہ کیا ہے، میں بھی ایک شہید خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، ان کا دکھ جانتا ہوں۔

اتنا بڑا سانحہ ہوا وزیراعظم نے آنے کی زحمت تک نہ کی

بلاول بھٹو نے کہا کہ میں ان شہیدوں کے لیے انصاف دیکھنا چاہتا ہوں، ان معصوم شہریوں کے قاتلوں کو عدالت میں دیکھنا چاہتا ہوں۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ کوئٹہ میں اتنا بڑا سانحہ ہوا وزیر اعظم نے آنے کی زحمت تک نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کس قسم کا نظام ہے کہ جس میں دہشت گردوں، کالعدم تنظیموں کے لیے ایمنسٹی ہے، بڑے بڑے دہشت گردوں کو ریسٹ ہاؤس میں رکھا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کالعدم تنظیموں کےخلاف کارروائی: حکومت کی نیت پر شک ہے، بلاول بھٹو

انہوں نے کہا کہ سیاسی اپوزیشن چاہے (ن) لیگ یا پیپلزپارٹی کی ہوں ان کو جیل بھیج سکتے ہیں، سزا دلواسکتے ہیں لیکن ہمارے نظام میں، عدلیہ میں یہ طاقت نہیں کہ چند کالعدم تنظیمیں جنہیں پوری دنیا دہشت گرد کہہ رہی ہے ان کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ عام انتخابات میں 6 بم دھماکے ہوئے، میں نے اسمبلی کی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ دہشت گردی کے ان واقعات کی تحقیقات کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے بھی میں یہاں ہزارہ ٹاؤن آیا ہوں،میں کب تک آتا رہوں گا، ہم کب تک تعزیت کرتے رہیں گے، انصاف مانگتے رہیں گے۔

چیئرمین پی پی نے کہا حکومت کو کالعدم تنظیموں، انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا، اگر ہمیں اس ملک میں معاشی ترقی چاہیے تو امن پہلی شرط ہے۔

تمام جماعتوں اور ریاست کو یک زبان ہونا ہوگا

بلاول بھٹو نے کہا کہ امن کے لیے ریاست اور ساری جماعتوں کو یک زبان ہونا پڑے گا کہ آج سے ہم دہشت گردی کے واقعات کو برداشت نہیں کریں گے جب تک پاکستان کی قیادت سنجیدہ نہیں ہوگی ہمیں انصاف نہیں ملے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں جب کہتا ہوں کہ ہمیں دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہے تو حکومت مجھے ملک دشمن قرار دیتی ہے۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ میں پوچھتا ہوں کہ ملک دشمن کون ہے جو ہمارے شہیدوں کا تحفظ چاہتے ہیں، جو چاہتے ہیں دہشت گردی نہ ہو یا وہ ملک دشمن ہیں جو حب وطنی کے سرٹیفکیٹ باندھے پھرتے ہیں لیکن مودی اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کچھ نہیں کہتے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ الیکشن مہم کے دوران میری رائے تھی جو بعد میں سچ ثابت ہوئی کہ کچھ قوتیں کٹھ پتلی حکومت لانا چاہتی ہیں تاکہ وہ اٹھارویں ترمیم کو ختم کرسکیں اور ون یونٹ قائم کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کے بعد خان صاحب کے وزیروں کی تقریریں، سندھ میں اپوزیشن کے بیانات ، گھوٹکی میں خان صاحب کے بیانات اور سوشل میڈیا پر خفیہ مہم بھی آپ کے سامنے ہے جو کہہ رہے ہیں نظام نہ بدلو، اپنے آپ کو بدلو۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ کتنی دیر تک ہم یہ سازشیں دیکھتے رہیں، جمہوریت کو نقصان نہ پہنچائیں، پاکستان کی ترقی اور فلاح جمہوریت میں ہے۔

صدارتی نظام ہمیشہ ناکام ہوا ہے

چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ اس ملک میں قائداعظم محمد علی جناح سے لے کر قائد عوام تک ہم فیصلہ نہیں کرسکے کہ ہمارا نظام کون سا ہوگا، ہمارا آئین کون سا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو ایک متفقہ آئین جمہوری پارلیمانی نظام اس ملک میں لے کر آئے، اسی نظام سے ہم سب کو ایک ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر آپ ون یونٹ، صدارتی نظام لاگو کریں گے تو تاریخ آپ کے سامنے ہے کہ جہاں بھی صدارتی نظام لایا گیا ہے وہ ناکام ہو ا، جمہوریت ناکام ہوئی اور آمر اقتدار میں آئے۔

انہوں نے کہا کہ جمہوری پارلیمانی نظام سے تمام صوبوں کو یکساں اختیارات ملتے ہیں، اس ملک میں صدارتی نظام نہیں چل سکتے۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ پہلے بھی ون یونٹ نظام سے ملک ٹوٹا اور آج بھی اگر ون یونٹ لانے کی کوشش ہوتی ہے تو ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

بلاول بھٹو نے کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو چلنے دیں، کٹھ پتلی خان ناکام ہوتو ایسا نہیں کریں گے کہ جمہوری نظام کو نہ چلنے دیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت اس ملک میں کرپشن جیسے ناسور کا مقابلہ کرنے کے لیے جس قانون کو استعمال کیا جاتا ہے وہ کالا قانون ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے 2002 میں دیکھا تھا کہ سلیکٹڈ حکومت لانے میں نیب کا کردار اہم تھا اور آج بھی ہم یہی دیکھ رہے ہیں۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ اپوزیشن کے ساتھ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کی جارہی ہے، اپوزیشن کی تقسیم پر تو حکومت کو خوش ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے معاشی حقوق، جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے پوری اپوزیشن ایک پیچ پر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں