گزشتہ دو حکومتوں کے قرضوں کی تفتیش، حسین اصغرکمیشن کے سربراہ مقرر

اپ ڈیٹ 18 جون 2019
معاون خصوصی شہزاد اکبر، فردوس عاشق اعوان میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
معاون خصوصی شہزاد اکبر، فردوس عاشق اعوان میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی کابینہ نے 2008 سے 2018 تک گزشتہ حکومتوں کی جانب سے لیے گئے قرضوں اور ان کے استعمال کی تفتیش کے لیے وزیراعظم کی جانب سے اعلان کردہ کمیشن کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ڈپٹی ڈائریکٹر حسین اصغر کو چیئرمین مقرر کرنے کی منظوری دے دی۔

وزیر اعظم کے معاونین خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان اور شہزاد اکبر نے کابینہ اجلاس کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے قرضوں کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام پر مبارک باد دی۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زائد کا قرضہ لینا غیر قانونی ہے اور یہ قانون 2005 میں بنایا گیا تھا تاکہ پاکستان کی خودمختاری پر کوئی آنچ نہ آئے تاہم 2012 میں اس قانون کی خلاف ورزی کا آغاز ہوگیا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا اربوں روپے کےقرضوں کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ 2008 تک پاکستان کا قرضہ تقریباً 6 ہزار ارب روپے تھا جو بڑھ کر 2018 میں 30 ہزار ارب تک پہنچ گیا، قوم کو مقروض کرنے والوں کے احتساب کے لیے وزیر اعظم نے کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا جو آج کابینہ کے اجلاس میں زیر بحث آیا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ 'کمیشن کی سربراہی کے لیے کابینہ نے 3 نام تجویز کیے تھے جن میں سے ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کو چنا گیا'۔

انہوں نے بتایا کہ 'کمیشن اس بات کا پتہ لگائے گی کہ گزشتہ 10 برسوں میں نہ کوئی ڈیم بنا اور نہ ہی کوئی بڑا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا تو اتنی کثیر تعداد میں حاصل کی گئی رقم کہاں گئی'۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 20-2019 کیلئے 70 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش

ان کا کہنا تھا کہ 'کمیشن 6 ماہ میں اپنا کام مکمل کرے گا جبکہ ہر ماہ اپنی عبوری رپورٹ پیش کرے گی جس میں ان کی اس وقت تک کی کارروائی کے حوالے سے اطلاع دی جائے گی'۔

واضح رہے کہ ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر پولیس سروس گریڈ 22 کے ریٹائرڈ افسر ہیں اور ڈائریکٹر اینٹی کرپشن پنجاب بھی رہ چکے ہیں۔

یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے قوم سے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ گذشتہ دس سال کے دوران لیے گئے قرضوں کے استعمال کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنایا جائے گا۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ 10 سال میں ملکی قرضہ 6 ہزار ارب روپے سے 30 ہزار ارب روپے ہوگیا، مشرف کے 8 سال کے دور میں 2 ارب ڈالرز کا غیر ملکی قرضہ بڑھا جبکہ پاکستانیوں کے 10 ارب ڈالرز کے بیرون ملک بینک اکاؤنٹس ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں اپنے نیچے اعلیٰ سطح کا انکوائری کمیشن بنانے لگا ہوں، تحقیقات کریں گے کہ 10 سال میں کس طرح ملک کو تباہ کیا گیا، انہوں نے پوری کوشش کی ملک کو تباہ کیا جائے، انکوائری کمیشن کے ذریعے 10 سال میں لیے گئے قرضوں کی تحقیقات کی جائے گی۔'

عمران خان کا کہنا تھا کہ 'انکوائری کمیشن میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر)، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے نمائندے شامل ہوں گے اور انکوائری کمیشن کے ذریعے پتہ لگائیں گے کہ 24 ہزار ارب روپے کا قرضہ کیسے چڑھا'۔

تبصرے (0) بند ہیں