چین: ایشیائی ممالک کی مغوی خواتین کی بازیابی کیلئے کارروائیاں

اپ ڈیٹ 22 جون 2019
چین میں پڑوسی ممالک سے خواتین کو شادی کا جھانسہ دے کر اسمگل کرنے کی رپورٹس سامنےآئی تھیں —فائل/فوٹو:اے ایف پی
چین میں پڑوسی ممالک سے خواتین کو شادی کا جھانسہ دے کر اسمگل کرنے کی رپورٹس سامنےآئی تھیں —فائل/فوٹو:اے ایف پی

چین کی پولیس نے 5 جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے انسانی اسمگلنگ کے ذریعے لائی گئیں خواتین کو بازیاب کروانے کے لیے کارروائیاں کرتےہوئے گزشتہ برس کے اواخر میں ایک ہزار 130 خواتین کو بچا لیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق چین کی وزارت برائے پبلک سیکیورٹی کا کہنا تھا کہ پولیس نے 262 غیر ملکیوں سمیت ایک ہزار 322 افراد کو گرفتار کیا جو مبینہ طور پر خواتین کو بہتر روزگار فراہم کرنے اور شادی کرنے کا وعدہ کرتے تھے۔

وزارت کے بیان کے مطابق خواتین کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف اب تک کی یہ سب سے بڑی کارروائی ہے۔

بیجنگ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزارت پبلک سیکیورٹی کے ترجمان گیو لن کا کہنا تھا کہ ‘حالیہ برسوں میں چند مقامی غیر ملکی افراد نے پڑوسی ممالک سے خواتین کو اغوا کرنے کی سازش کی اور چین میں انہیں بطور دلہن کے بیچ دیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ان خواتین کے حقوق اور مفادات کی سنگین خلاف ورزی ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی لڑکیوں کی اسمگلنگ: چینی باشندوں سمیت مزید 14 افراد گرفتار

خیال رہے کہ چین میں گزشتہ چند برسوں میں غیر ملکی خواتین سے شادی کرنے کے واقعات میں اضافے کی رپورٹس آرہی ہیں جس کو چین کی ایک بچے کی پالیسی کی وجہ قرار دیا جارہا تھا جس کے تحت چین شادی شدہ جوڑوں کو ایک بچے کی اجازت تھی، تاہم تین برس قبل اس قانون میں تبدیلی کی گئی۔

گزشتہ برس کئی رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ انسانی اسمگلرز پڑوسی ممالک سے خواتین کو شادی اور روزگار کا جھانسہ دے کر سرحد پار کراتے ہیں جس کے بعد انہیں دلہن کے طور پر فروخت کردیا جاتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق ان خواتین کو دور دراز علاقوں میں رکھا جاتا تھا جہاں وہ مقامی زبان سے نابلد ہونے کے باعث کچھ نہیں کہہ سکتی تھیں جس کا فائدہ اسمگلرز اٹھاتے ہیں۔

چین نے پڑوسی ممالک میانمار، ویت نام، کمبوڈیا، لاؤس اور تھائی لینڈ سے 2004 میں سرحد پر انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے انسداد اسمگلنگ کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

چینی حکام کی جانب سے جاری کی گئی حالیہ تفصیلات کے مطابق یہ کارروائیاں گزشتہ برس جولائی سے دسمبر کے دوران 6 ممالک کی پولیس کے ساتھ مشترکہ طور پر کی گئیں۔

مزید پڑھیں: پاکستانی لڑکیوں سے’شادی‘ : ’چین کی معاملے میں مکمل تعاون کی یقین دہانی‘

ویتنام سے اغوا ہونے والی خواتین کی رہائی کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'پیسفک لنکس' کے ڈائریکٹر می می وو کا کہنا تھا کہ مشترکہ کارروائیاں انسانی اسمگلنگ کو روکنے کی حوصلہ افزا نشانی ہے۔

یاد رہے کہ رواں برس چینی افراد کی جانب سے پاکستانی لڑکیوں سے شادیوں کے بعد فراڈ کے واقعات سامنے آئے تھے اور 6 مئی کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے لاہور میں کارروائی کرکے جسم فروشی کے لیے پاکستانی لڑکیوں سے شادی رچانے والے 8 چینی شہریوں کو گرفتار کر لیا، اس سے قبل بھی متعدد چینی شہریوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

بعد ازاں دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے پاکستان میں چینی باشندوں کی گرفتاری سے متعلق میڈیا رپورٹس کے حوالے سے کہا تھا کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کے متعلقہ عہدیدار اس حوالے سے مسلسل رابطے میں ہیں۔

ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ چین کی حکومت نے مذکورہ مسئلے پر مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی جو کہ قابل ستائش ہے اور چین سے ایک ٹیم نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا اور دفاعی اداروں کے حکام سے ملاقاتیں کیں۔

تبصرے (0) بند ہیں